قَالَ قَدْ أُجِيبَت دَّعْوَتُكُمَا فَاسْتَقِيمَا وَلَا تَتَّبِعَانِّ سَبِيلَ الَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ
اللہ نے فرمایا میں نے تم دونوں کی دعا قبول کی، تو اب تم (اپنی راہ میں) جم کر کھڑے ہوجاؤ اور ان لوگوں کی پیروی نہ کرو جو (میرا طریق کار) نہیں جانتے (اور اس لیے صبر نہیں کرسکتے)
1- اس کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ اپنی بد دعا پر قائم رہنا، چاہے اس کے ظہور میں تاخیر ہو جائے۔ کیونکہ تمہاری دعا تو یقینا قبول کر لی گئی لیکن ہم اسے عملی جامہ کب پہنائیں گے؟ یہ خالص ہماری مشیت و حکمت پر موقوف ہے۔ چنانچہ بعض مفسرین نے بیان کیا کہ اس بد دعا کے چالیس سال بعد فرعون اور اس کی قوم ہلاک کی گئی اور بد دعا کے مطابق فرعون جب ڈوبنے لگا تو اس وقت اس نے ایمان لانے کا اعلان کیا، جس کا اسے کوئی فائدہ نہ ہوا۔ دوسرا مطلب یہ کہ تم اپنی تبلیغ و دعوت۔ بنی اسرائیل کی ہدایت وراہنمائی اور اس کو فرعون کی غلامی سے نجات دلانے کی جد و جہد جاری رکھو۔ 2- یعنی جو لوگ اللہ کی سنت، اس کے قانون، اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے، تم ان کی طرح مت ہونا بلکہ اب انتظار اور صبر کرو، اللہ تعالٰی اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق جلد یا بہ دیر اپنا وعدہ ضرور پورا فرمائے گا۔ کیونکہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔