وَإِمَّا نُرِيَنَّكَ بَعْضَ الَّذِي نَعِدُهُمْ أَوْ نَتَوَفَّيَنَّكَ فَإِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللَّهُ شَهِيدٌ عَلَىٰ مَا يَفْعَلُونَ
اور (اے پیغمبر) ہم نے ان لوگوں سے ( یعنی منکرین عرب سے) جن جن باتوں کا وعدہ کیا ہے (یعنی دعوت حق کے پیش آنے والے نتائج کی خبر دی ہے) ان میں سے بعض باتیں تجھے (تیری زندگی میں) دکھا دیں یا (ان کے ظہور سے پہلے) تیرا وقت پورا کردیں لیکن بہرحال انہیں ہماری ہی طرف لوٹنا ہے اور یہ جو کچھ کر رہے ہیں اللہ اس پر شاہد ہے۔
* اس آیت میں اللہ تعالٰی فرما رہا ہے ہم ان کفار کے بارے میں جو وعدہ کر رہے ہیں اگر انہوں نے کفر و شرک پر اصرار جاری رکھا تو ان پر بھی عذاب الٰہی آسکتا ہے، جس طرح پچھلی قوموں پر آیا، ان میں سے بعض اگر ہم آپ کی زندگی میں بھیج دیں تو یہ بھی ممکن ہے، جس سے آپ کی آنکھیں ٹھنڈی ہونگی۔ لیکن اگر آپ اس سے پہلے ہی دنیا سے اٹھا لئے گئے، تب بھی کوئی بات نہیں، ان کافروں کو بالآخر ہمارے پاس ہی آنا ہے۔ ان کے سارے اعمال و احوال کی ہمیں اطلاع ہے، وہاں یہ ہمارے عذاب سے کس طرح بچ سکیں گے، قیامت کے وقوع کا مقصد ہی یہ ہے کہ وہاں اطاعت گزاروں کو ان کی اطاعت کا صلہ اور نافرمانوں کو ان کی نافرمانی کی سزا دی جائے۔