وَيَوْمَ نَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِينَ أَشْرَكُوا مَكَانَكُمْ أَنتُمْ وَشُرَكَاؤُكُمْ ۚ فَزَيَّلْنَا بَيْنَهُمْ ۖ وَقَالَ شُرَكَاؤُهُم مَّا كُنتُمْ إِيَّانَا تَعْبُدُونَ
اور (دیکھو) جس دن ایسا ہوگا کہ ہم ان سب کو اپنے حضور اکٹھا کریں گے اور پھر ان لوگوں سے جنہوں نے شرک کیا ہے کہیں گے تم اور وہ سب جنہیں تم نے شریک ٹھہرایا تھا اپنی جگہ سے نہ ہلو، (یعنی اپنے مقام میں رکے رہو، آگے نہ بڑھو) اور پھر ایسا ہوگا کہ ایک دوسرے سے انہیں الگ الگ کردیں گے (یعنی شرک کرنے والوں میں اور ان میں جنہیں شریک بنایا گیا امتیاز پیدا ہوجائے گا) تب وہ ہستیاں جنہیں خدا کے ساتھ شریک بنایا گیا ہے کہیں گی : یہ بات تو نہ تھی کہ تم ہماری ہی پرستش کرتے تھے۔
* جَمِيعًا سے مراد، ازل سے ابد تک کے تمام اہل زمین انسان اور جنات ہیں، سب کو اللہ تعالٰی جمع فرمائے گا جس طرح کہ دوسرے مقام پر فرمایا ﴿وَحَشَرْنَاهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ أَحَدًا﴾ (الکہف:47) ”ہم ان سب کو اکھٹا کریں گے، کسی ایک کو بھی نہ چھوڑیں گے“۔ ** ان کے مقابلے میں اہل ایمان کو دوسری طرف کر دیا جائے گا یعنی اہل ایمان اور اہل کفر و شرک کو الگ الگ ایک دوسرے سے ممتاز کر دیا جائے گا جیسے فرمایا ﴿وَامْتَازُوا الْيَوْمَ اَيُّهَا الْمُجْرِمُوْنَ﴾ (یس:59) ﴿يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ﴾ (الروم:43) «اس دن لوگ گروہوں میں بٹ جائیں گے ' یعنی دو گروہوں میں۔ أَيْ: يَصِيرُونَ صِدْعَيْنِ (ابن کثیر) *** یعنی دنیا میں ان کے درمیان آپس میں جو خصوصی تعلق تھا وہ ختم کر دیا جائے گا اور ایک دوسرے کے دشمن بن جائیں گے اور ان کے معبود اس بات کا ہی انکار کریں گے کہ یہ لوگ ان کی عبادت کرتے تھے، ان کو مدد کے لئے پکارتے تھے، ان کے نام کی نذر نیاز دیتے تھے۔