لَّقَد تَّابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ
یقینا اللہ اپنی رحمت سے پیغمبر پر متوجہ ہوگیا، نیز مہاجرین اور انصار پر جنہوں نے بڑی تنگی اور بے سروسامانی کی گھڑی میں اس کے پیچھے قدم اٹھایا اور اس وقت اٹھایا جبکہ حالت ایسی ہوچکی تھی کہ قریب تھا ان میں سے ایک گروہ کے دل ڈگمگا جائیں، پھر وہ اپنی رحمت سے ان سب پر متوجہ ہوگیا۔ بلاشبہ وہ شفقت رکھنے والا رحمت فرمانے والا ہے۔
* جنگ تبوک کے سفر کو 'تنگی کا وقت' قرار دیا۔ اس لئے کہ ایک تو موسم سخت گرمی کا تھا دوسرے، فصلیں تیار تھیں، تیسرے، سفر خاصا لمبا تھا اور چوتھے وسائل کی بھی کمی تھی۔ اس لئے اسے ”جَيش الْعسرَة“ (تنگی کا قافلہ یا لشکر) کہا جاتا ہے۔ توبہ کے لئے ضروری نہیں ہے کہ پہلے گناہ یا غلطی کا ارتکاب ہو۔ اس کے بغیر بھی رفع درجات اور غیر شعوری طور پر ہونے والی کوتاہیوں کے لئے توبہ ہوتی ہے۔ یہاں مہاجرین و انصار کے اس سے پہلے گروہ کی توبہ اس مفہوم میں ہے جنہوں نے بلا تأمل نبی (ﷺ)کے حکم جہاد پر لبیک کہا۔ ** یہ اس دوسرے گروہ کا ذکر ہے جسے مذکورہ وجوہ سے ابتداءً تردد ہوا۔ لیکن پھر جلد ہی وہ اس کیفیت سے نکل آیا اور بخوشی جہاد میں شریک ہوا۔ دلوں میں تزلزل سے مراد دین کے بارے میں کوئی تزلزل یا شبہ نہیں ہے بلکہ مذکورہ دنیاوی اسباب کی وجہ سے شریک جہاد ہونے میں جو تذبذب اور تردد تھا وہ مراد ہے۔