وَالَّذِينَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَكُفْرًا وَتَفْرِيقًا بَيْنَ الْمُؤْمِنِينَ وَإِرْصَادًا لِّمَنْ حَارَبَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ مِن قَبْلُ ۚ وَلَيَحْلِفُنَّ إِنْ أَرَدْنَا إِلَّا الْحُسْنَىٰ ۖ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ
اور (منافقوں میں وہ وہ لوگ بھی ہیں) جنہوں نے اس غرض سے ایک مسجد بنا کر کھڑی کی کہ نقصان پہنچائیں، کفر کریں، مومنوں میں تفرقہ ڈالیں اور ان لوگوں کے لیے ایک کمیں گاہ پیدا کردیں جو اب سے پہلے اللہ اور اس کے رسول سے لڑ چکے ہیں، وہ ضرور قسمیں کھا کر کہیں گے کہ ہمارا مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ بھلائی ہو، لیکن اللہ کی گواہی یہ ہے کہ وہ اپنی قسموں میں قطعا جھوٹے ہیں۔
* اس میں منافقین کی ایک اور نہایت قبیح حرکت کا بیان ہے کہ انہوں نے ایک مسجد بنائی۔ اور نبی (ﷺ) کو باور کرایا کہ، بارش، سردی اور اس قسم کے موقع پر بیماروں اور کمزوروں کو زیادہ دور جانے میں دقت پیش آتی ہے ان کی سہولت کے لئے ہم نے یہ مسجد بنائی ہے۔ آپ (ﷺ) وہاں چل کر نماز پڑھیں تاکہ ہمیں برکت حاصل ہو۔ آپ (ﷺ) اس وقت تبوک کے لئے پابہ رکاب تھے، آپ (ﷺ) نے واپسی پر نماز پڑھنے کا وعدہ فرمایا۔ لیکن واپسی پر وحی کے ذریعے سے اللہ تعالٰی نے منافقین کے اصل مقاصد کو بے نقاب کر دیا کہ اس سے وہ مسلمانوں کو نقصان پہنچانا، کفر پھیلانا مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کرنا اور اللہ اور اللہ کے رسول (ﷺ) کے دشمنوں کے لئے کمین گاہ مہیا کرنا چاہتے ہیں۔ ** یعنی جھوٹی قسمیں کھا کر وہ نبی کو فریب دینا چاہتے تھے لیکن اللہ تعالٰی آپ (ﷺ) کو ان کے مکرو فریب سے بچا لیا اور فرمایا کہ ان کی نیت صحیح نہیں اور یہ جو کچھ ظاہر کر رہے ہیں، اس میں جھوٹے ہیں۔