سورة التوبہ - آیت 97

الْأَعْرَابُ أَشَدُّ كُفْرًا وَنِفَاقًا وَأَجْدَرُ أَلَّا يَعْلَمُوا حُدُودَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اعرابی کفر اور نفاق میں سب سے زیادہ سخت ہیں اور اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ ان کی نسبت سمجھا جائے دین کے ان حکموں کی انہیں خبر نہیں جو اللہ نے اپنے رسول پر نازل کیے ہیں (کیونکہ آبادیوں میں نہ رہنے کی وجہ سے تعلیم و تربیت کا موقع انہیں حاصل نہی) اور اللہ (سب کا حال) جاننے والا (اپنے تمام کاموں میں) حکمت رکھنے والا ہے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* مذکورہ آیات میں ان منافقین کا تذکرہ تھا جو مدینہ شہر میں رہائش پذیر تھے۔ اور کچھ منافقین وہ بھی تھے جو بادیہ نشین یعنی مدینہ کے باہر دیہاتوں میں رہتے تھے، دیہات کے ان باشندوں کو اعراب کہا جاتا ہے جو اعرابی کی جمع ہے شہریوں کے اخلاق و کردار میں درشتی اور کھردراپن زیادہ پایا جاتا ہے اس طرح ان میں جو کافر اور منافق تھے وہ کفر و نفاق میں بھی شہریوں سے زیادہ سخت اور احکام شریعت سے زیادہ بےخبر تھے اس آیت میں انہی کا تذکرہ اور انکے اسی کردار کی وضاحت ہے۔ بعض احادیث سے بھی ان کے کردار پر روشنی پڑتی ہے۔ مثلًا ایک موقع پر کچھ اعرابی رسول اللہ (ﷺ) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے پوچھا [ اَتُقَبْلُوْنَ صِبْیَانکُمْ ]، ”کیا تم اپنے بچے کو بوسہ دیتے ہو؟“، صحابہ (رضی الله عنہم) نے عرض کیا ”ہاں“ انہوں نے کہا ”واللہ! ہم تو بوسہ نہیں دیتے“ رسول اللہ (ﷺ) نے سن کر فرمایا ”اگر اللہ نے تمہارے دلوں میں سے رحم وشفقت کا جذبہ نکال دیا ہے تو میرا اس میں کیا اختیار ہے؟“۔ (صحیح بخاری کتاب الأدب، باب رحمة الولد وتقبیله ومعانقته۔ صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب رحمته (ﷺ) الصبیان والعیال) ** اس کی وجہ یہ ہے کہ چوں کہ وہ شہر سے دور رہتے ہیں اور اللہ اور رسول (ﷺ) کی باتیں سننے کا اتفاق ان کو نہیں ہوتا۔