الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَٰئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِهِ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
اہل کتاب میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو کتاب الٰہی کی ٹھیک ٹھیک تلاوت کرتے ہیں (یعنی راست بازی و اخلاص کے ساتھ پڑھتے ہیں) تو وہی ہیں جو (قبولیت کی استعداد رکھتے ہیں اور اس لیے وہی ہیں جو) اس پر ایمان لائیں گے اور جو کوئی ان میں سے انکار کرتا ہے تو (اس کی ہدایت کی کوئی امید نہیں) یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے تباہی و نامرادی ہے
1-اہل کتاب کے ناخلف لوگوں کے مذموم اخلاق وکردار کی ضروری تفصیل کے بعد ان میں جو لوگ کچھ صالح اور اچھے کردار کے تھے، اس آیت میں ان کی خوبیاں، اور ان کے مومن ہونے کی خبر دی جارہی ہے۔ ان میں عبداللہ بن سلام (رضی الله عنہ) اور ان جیسے دیگر افراد ہیں، جن کو یہودیوں میں سے قبول اسلام کی توفیق حاصل ہوئی۔ 2- (وہ اس طرح پڑھتے ہیں، جس طرح پڑھنے کا حق ہے)۔ کے کئی مطلب بیان کئے گئے ہیں۔ مثلاً خوب توجہ اور غور سے پڑھتے ہیں۔ جنت کا ذکر آتا ہے تو جنت کا سوال کرتے اور جہنم کا ذکر آتا ہے تو اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ اس کے حلال کو حلال، حرام کو حرام سمجھتے اور کلام الٰہی میں تحریف نہیں کرتے (جیسے دوسرے یہودی کرتے تھے)۔ اس میں جو کچھ تحریر ہے، لوگوں کو بتلاتے ہیں، اس کی کوئی بات چھپاتے نہیں۔ اس کی محکم باتوں پر عمل کرتے، متشابہات پر ایمان رکھتے اور جو باتیں سمجھ میں نہیں آتیں، انہیں علما سے حل کراتے ہیں اس کی ایک ایک بات کا اتباع کرتے ہیں (فتح القدیر) واقعہ یہ ہے کہ حق تلاوت میں یہ سارے ہی مفہوم داخل ہیں اور ہدایت ایسے ہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے جو مذکورہ باتوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ 3- اہل کتاب میں سے جو نبی (ﷺ) کی رسالت پر ایمان نہیں لائے گا، وہ جہنم میں جائے گا۔ كَمَا فِي الصَّحِيحِ (ابن کثیر)