أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَّكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُم بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ ۚ أَتَخْشَوْنَهُمْ ۚ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَوْهُ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
(مسلمانو) کیا تم ایسے لوگوں سے جنگ نہیں کرتے جنہوں نے اپنے عہد و پیمان کی قسمیں توڑ ڈالیں، جنہوں نے اللہ کے رسول کو اس کے وطن سے نکال باہر کرنے کے منصوبے کیے اور پھر تمہاری برخلاف لڑائی میں پہلی بھی انہی کی طرف سے ہوئی؟ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟ (اگر ڈرتے ہو تو تم مومن نہیں کیونکہ) اگر مومن ہو تو اللہ اس بات کا زیادہ سزا وار ہے کہ اس کا ڈر تمہارے دلوں میں بسا ہوا۔
* أَلا حرف تحضیض ہے، جس سے رغبت دلائی جاتی ہے، اللہ تعالٰی مسلمانوں کو جہاد کی ترغیب دے رہا ہے۔ ** اس سے مراد دارالندوہ کی مشاورت ہے جس میں رؤسائے مکہ نے نبی (ﷺ) کے جلا وطن کرنے، قید کرنے یا قتل کرنے کی تجویزوں پر غور کیا۔ *** اس سے مراد یا تو بدر کی جنگ میں مشرکین مکہ کا رویہ ہے کہ وہ اپنے تجارتی قافلے کی حفاظت کے لئے گئے، لیکن اس کے باوجود کہ انہوں دیکھ لیا کہ وہ قافلہ بچ کر نکل گیا ہے وہ بدر کے مقام پر مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کرتے اور چھیڑ خانی کرتے رہے، جس کے نتیجے میں بالآخر جنگ ہو کر رہی۔ یا اس سے مراد قبیلہ بنی بکر کی وہ امداد ہے جو قریش نے ان کی کی، جب کہ انہوں نے رسول اللہ (ﷺ) کے حلیف قبیلے خزاعہ پر چڑھائی کی تھی دراں حالیکہ قریش کی یہ امداد معاہدے کی خلاف ورزی تھی۔