سورة الانفال - آیت 58

وَإِمَّا تَخَافَنَّ مِن قَوْمٍ خِيَانَةً فَانبِذْ إِلَيْهِمْ عَلَىٰ سَوَاءٍ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر ایک گروہ (ابھی میدان جنگ میں تو دشمنوں کے ساتھ نکلا ہے لیکن اس) سے تمہیں دغا کا اندیشہ ہے تو چاہیے ان کا عہد انہی پر الٹا دو۔ (یعنی عہد فسخ کردو) اس طرح کہ دونوں جانب یکساں حالت میں ہوجائیں (یعنی ایسا نہ کیا جائے کہ اچانک شکست عہد کی انہیں خبر دی جائے بلکہ پہلے سے جتا دینا چاہیے، تاکہ دونوں فریقوں کو یکساں طور پر تیاری کی مہلت مل جائے) یاد رکھو اللہ خیانت کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔

تفسیر احسن البیان - حافظ صلاح الدین یوسف رحمہ اللہ

1- خیانت سے مراد ہے معاہد قسم سے نقض عہد کا خطرہ - اور عَلَى سَوَاءٍ (برابری کی حالت میں) کا مطلب ہے کہ انہیں باقاعدہ مطلع کیا جائے کہ آئندہ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ نہیں۔ تاکہ دونوں فریق اپنے اپنے طور پر اپنی حفاظت کے ذمہ دار ہوں، کوئی ایک فریق لاعلمی اور مغالطے میں نہ مارا جائے۔ 2- یعنی یہ نقض عہد اگر مسلمانوں کی طرف سے بھی ہو تو یہ خیانت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) اور رومیوں کے درمیان معاہدہ تھا۔ جب معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب آئی تو حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) نے روم کی سرزمین کے قریب اپنی فوجیں جمع کرنا شروع کر دیں۔ مقصد یہ تھا کہ معاہدے کی مدت ختم ہوتے ہی رومیوں پر حملہ کر دیا جائے۔ ایک صحابی حضرت عمرو بن عبسہ (رضی الله عنہ) کے علم میں حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) کی یہ تیاری آئی تو انہوں نے اسے غدر سے تعبیر فرمایا اور ایک حدیث رسول بیان فرما کر اسے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا، جس پر حضرت معاویہ (رضی الله عنہ) نے اپنی فوجیں واپس بلالیں۔ (مسند أحمد جلد 5، ص - 111، أبو داود كتاب الجهاد، باب في الإمام يكون بينه وبين العدو عهد فيسير نحوه (إليه)، ترمذي، أبواب السير، باب ما جاء في الغدر)