وَإِذْ يُرِيكُمُوهُمْ إِذِ الْتَقَيْتُمْ فِي أَعْيُنِكُمْ قَلِيلًا وَيُقَلِّلُكُمْ فِي أَعْيُنِهِمْ لِيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا ۗ وَإِلَى اللَّهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ
اور (پھر دیکھو) جب تم دونوں فریق ایک دوسرے کے مقابل ہوئے تھے اور اللہ نے ایسا کیا تھا کہ دشمن تمہاری نظروں میں تھوڑے دکھائی دیئے، (کیونکہ تمہارے دلوں میں ایمان و استقامت کی روح پیدا ہوگئی تھی) اور ان کی نظروں میں تم تھوڑے دکھائی دئے (کیونکہ بظاہر تعداد میں وہی زیادہ تھے) اور یہ اس لیے کیا تھا تاکہ جو بات ہونے و الی تھی اسے کر دکھائے اور سارے کاموں کا دارومدار اللہ ہی کی ذات پر ہے۔
* تاکہ وہ کافر بھی تم سے خوف کھا کر پیچھے نہ ہٹیں۔ پہلا واقعہ خواب کا تھا اور یہ دکھلانا عین قتال کے وقت تھا، جیسا کہ الفاظ قرآنی سے واضح ہے ۔ تاہم یہ معاملہ ابتداء میں تھا۔ لیکن جب باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی تو پھر کافروں کو مسلمان اپنے سے دوگنا نظر آتے تھے جیسا کہ سورۂ آل عمران کی آیت 13 سے معلوم ہوتا ہے۔ بعد میں زیادہ دکھانے کی حکمت یہ نظر آتی ہے کہ کثرت دیکھ کر ان کے اندر مسلمانوں کا خوف اور دہشت بیٹھ جائے، جس سے ان کے اندر بزدلی اور پست ہمتی پیدا ہو، اس کے برعکس پہلے کم دکھانے میں حکمت یہ تھی کہ وہ لڑنے سے گریز نہ کریں۔ ** اس سب کا مقصد یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو فیصلہ کیا ہوا تھا، وہ پورا ہو جائے۔ اس لئے اس نے اس کے اسباب پیدا فرما دیئے۔