سورة الانفال - آیت 42

إِذْ أَنتُم بِالْعُدْوَةِ الدُّنْيَا وَهُم بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَىٰ وَالرَّكْبُ أَسْفَلَ مِنكُمْ ۚ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِي الْمِيعَادِ ۙ وَلَٰكِن لِّيَقْضِيَ اللَّهُ أَمْرًا كَانَ مَفْعُولًا لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

یہ وہ دن تھا کہ تم ادھر قریب کے ناکے پر تھے، ادھر دشمن دور کے ناکے پر اور قافلہ تم سے نچلے حصے میں تھا (یعنی سمندر کے کنارے نکل گیا تھا) اور اگر تم نے آپس میں لڑائی کی بات ٹھہرائی ہوتی تو ضرور میعاد سے گزیز کرتے (کیونکہ تمہیں دشمنوں کی کثرت سے اندیشہ تھا اور تم میں سے بہتوں کی نظر قافلہ پر تھی) لیکن اللہ نے دونوں لشکروں کو بھڑا دیا تاکہ جو بات ہونے والی تھی اسے کر دکھائے، نیز اس لیے کہ جسے ہلاک ہونا ہے اتمام حجت کے بعد ہلاکت ہو اور جو زندہ رہنے والا ہے اتمام حجت کے بعد زندہ رہے اور بلا شبہ اللہ سب کی سنتا اور سب کچھ جانتا ہے۔

تفسیر مکہ - حافظ صلاح الدین یوسف حافظ

* دنیا، دُنُوٌّ سے ہے بمعنی قریب- مراد ہے وہ کنارہ جو مدینہ شہر کے قریب تھا۔ قصویٰ کہتے ہیں دور کو۔ کافر اس کنارے پر تھے جو مدینہ سے نسبتاً دور تھا ۔ ** اس سے مراد وہ تجارتی قافلہ ہے جو حضرت ابو سفیان (رضی الله عنہ) کی قیادت میں شام سے مکہ جا رہا تھا اور جسے حاصل کرنے کے لئے ہی دراصل مسلمان اس طرف آئے تھے۔ یہ پہاڑ سے بہت دور مغرب کی طرف نشیب میں تھا، جب کہ بدر کا مقام جہاں جنگ ہوئی، بلندی پر تھا۔ *** یعنی اگر جنگ کے لئے باقاعدہ دن اور تاریخ کا ایک دوسرے کے ساتھ وعدہ یا اعلان ہوتا تو ممکن بلکہ یقین تھا کہ کوئی فریق لڑائی کے بغیر ہی پسپائی اختیار کر لیتا لیکن چونکہ اس جنگ کا ہونا اللہ نے لکھ رکھا تھا، اس لئے ایسے اسباب پیدا کر دیئے گئے کہ دونوں فریق بدر کے مقام پر ایک دوسرے کے مقابل بغیر پیشگی وعدہ وعید کے، صف آرا ہو جائیں۔ **** یہ علت ہے اللہ کی اس تقدیری مشیت کی جس کے تحت بدر میں فریقین کا اجتماع ہوا، تاکہ جو ایمان پر زندہ رہے تو وہ دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور اسے یقین ہو کہ اسلام حق ہے کیونکہ اس کی حقانیت کا مشاہدہ وہ بدر میں کر چکا ہے اور جو کفر کے ساتھ ہلاک ہو تو وہ بھی دلیل کے ساتھ ہلاک ہو کیونکہ اس پر یہ واضح ہو چکا ہے کہ مشرکین کا راستہ گمراہی اور باطل کا راستہ ہے۔