كَمَا أَخْرَجَكَ رَبُّكَ مِن بَيْتِكَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ لَكَارِهُونَ
(اس معاملہ کو بھی ویسا ہی سمجھ) جس طرح (جنگ بدر میں) یہ بات ہوئی تھی کہ تیرے پروردگار نے سچائی کے ساتھ تجھے تیرے گھر سے نکالا تھا اور یہ واقعہ ہے کہ مومنوں کا ایک گروہ اس بات سے ناخوش تھا۔
* یعنی جس طرح مال غنیمت کی تقسیم کا معاملہ مسلمانوں کے درمیان اختلاف کا باعث بنا ہوا تھا۔ پھر اسے اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) کے حوالہ کردیا گیا تو اسی میں مسلمانوں کی بہتری تھی، اسی طرح آپ کا مدینہ سے نکلنا، اور پھر آگے چل کر تجارتی قافلے کے بجائے، لشکر قریش سے مدبھیڑ ہوجانا، گو بعض طبائع کے لیے ناگوار تھا، لیکن اس میں بھی بالاخر فائدہ مسلمانوں ہی کا ہوگا۔ ** یہ ناگواری لشکر قریش سے لڑنے کے معاملے میں تھی، جس کا اظہار چند ایک افراد کی طرف سے ہوا اور اس کی وجہ بھی صرف بے سروسامانی تھی۔ اس کا تعلق مدینہ سے نکلنے سے نہیں ہے۔