فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ
پھر جب خدا نے انہیں ایک تندرست فرزند دے دیا تو جو چیز خدا نے دی اس میں دوسری ہستیوں کو شریک ٹھہرانے لگے، سو (یاد رکھو) یہ لوگ جیسی کچھ شرک کی باتیں کرتے ہیں اس سے اللہ کی ذات بہت بلند ہے۔
* شریک قرار دینے سے مراد یا تو بچے کا نام ایسا رکھنا ہے، مثلاً امام بخش، پیراں دتہ ، عبد شمس، بندۂ علی، وغیرہ، جس سے یہ اظہار ہوتا ہو کہ یہ بچہ فلاں بزرگ، فلاں پیر کی (نعوذ باللہ) نظر کرم کا نتیجہ ہے۔ یا پھر اپنے اس عقیدے کا اظہار کرے کہ ہم فلاں بزرگ یا فلاں قبر پر گئے تھے جس کے نتیجے میں یہ بچہ پیدا ہوا ہے۔ یا کسی مردہ کے نام کی نذر نیاز دے یا بچے کو کسی قبر پر لے جاکر اس کا ماتھا وہاں ٹکائے کہ ان کے طفیل بچہ ہوا ہے۔ یہ ساری صورتیں اللہ کا شریک ٹھہرانے کی ہیں، جو بدقسمتی سے مسلمان عوام میں بھی عام ہیں۔ اگلی آیات میں اللہ تعالیٰ شرک کی تردید فرما رہا ہے ۔