حَقِيقٌ عَلَىٰ أَن لَّا أَقُولَ عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ۚ قَدْ جِئْتُكُم بِبَيِّنَةٍ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَرْسِلْ مَعِيَ بَنِي إِسْرَائِيلَ
میرا فرض منصبی ہے خدا کے نام سے کوئی بات نہ کہوں مگر یہ کہ سچ ہو، میں تیرے پروردگار کی طرف سے (سچائی کی) روشن دلیلیں لایا ہوں۔ سو بنی اسرائیل کو (آئندہ اپنی غلامی پر مجبور نہ کرو) اور میرے ساتھ رخصت کردے۔
* جو اس بات کی دلیل ہے کہ میں واقعی اللہ کی طرف سے مقرر کردہ رسول ہوں ۔ اس معجزے اور بڑی دلیل کی تفصیل بھی آگے آرہی ہے۔ ** بنی اسرائیل ، جن کا اصل مسکن شام کا علاقہ تھا، حضرت یوسف (عليہ السلام) کے زمانے میں مصر چلے گئے تھے اور پھر وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ فرعون نے ان کو غلام بنا لیا تھا اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرتا تھا، جس کی تفصیل پہلے سورۂ بقرہ میں گزر چکی ہے اور آئندہ بھی آئے گی۔ فرعون اور اس کے درباری امراء نے جب حضرت موسیٰ (عليہ السلام) کی دعوت کو ٹھکرا دیا تو حضرت موسیٰ (عليہ السلام) نے فرعون سے یہ دوسرا مطالبہ کیا کہ بنی اسرائیل کو آزاد کردے تاکہ یہ اپنے آبائی مسکن میں جا کر عزت واحترام کی زندی گزاریں اور اللہ کی عبادت کریں۔