قَدِ افْتَرَيْنَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِي مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا ۚ وَمَا يَكُونُ لَنَا أَن نَّعُودَ فِيهَا إِلَّا أَن يَشَاءَ اللَّهُ رَبُّنَا ۚ وَسِعَ رَبُّنَا كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا ۚ عَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْنَا ۚ رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ
اگر ہم تمہارے دین میں لوٹ آئیں حالانکہ خدا نے (علم و یقین کی روشنی نمایاں کر کے) ہمیں اس سے نجات دے دی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے جھوٹ بولتے ہوئے خدا پر بہتان باندھا، ہمارے لیے ممکن نہیں کہ اب قدم پیچھے ہٹائیں، ہاں اللہ کا جو ہمارا پروردگار ہے ایسا ہی چاہنا ہو۔ (تو وہ جو چاہے گا ہو کر رہے گا) کوئی چیز نہیں جس پر وہ اپنے علم سے چھایا ہوا نہ ہو۔ ہمارا تمام تر بھروسہ اسی پر ہے، اے پروردگار ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان سچائی کے ساتھ فیصلہ کردے اور تو بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔
* یعنی اگر ہم دوبارہ اس دین آبائی کی طرف لوٹ آئے ، جس سے اللہ نے ہمیں نجات دی، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے ایمان وتوحید کی دعوت دے کر اللہ پر جھوٹ باندھا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہماری طرف سے ایسا ہو ۔ ** اپنا عزم ظاہر کرنے کے بعد معاملہ اللہ کی مشیت کے سپرد کر دیا۔ یعنی ہم تو اپنی رضا مندی سے اب کفر کی طرف نہیں لوٹ سکتے۔ ہاں اگر اللہ چاہے تو بات اور ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ ﴿حَتَّى يَلِجَ الْجَمَلُ فِي سَمِّ الْخِيَاطِ﴾ کی طرح تعلیق بالمحال ہے۔ *** کہ وہ ہمیں ایمان پر ثابت رکھے گا اور ہمارے اور کفر واہل کفر کے درمیان حائل رہے گا، ہم پر اپنی نعمت کا اتمام فرمائے گا اور اپنے عذاب سے محفوظ رکھے گا ۔ **** اور اللہ جب فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ یہی ہوتا ہے کہ اہل ایمان کو بچا کر مکذبین اور متکبرین کو ہلاک کر دیتا ہے ۔ یہ گویا عذاب الٰہی کے نزول کا مطالبہ ہے ۔