وَلَا تَقْعُدُوا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوعِدُونَ وَتَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ مَنْ آمَنَ بِهِ وَتَبْغُونَهَا عِوَجًا ۚ وَاذْكُرُوا إِذْ كُنتُمْ قَلِيلًا فَكَثَّرَكُمْ ۖ وَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِينَ
اور دیکھو ایسا نہ کرو کہ (دعوت حق کی اشاعت روکنے کے لیے) ہر راستے جا بیٹھو اور جو آدمی بھی ایمان لائے اسے دھمکیاں دے کر خدا کی راہ سے روکو اور اس میں کجی ڈالنے کے درپے ہورہو۔ خدا کا احسان یاد کرو کہ تم بہت تھوڑے تھے اس نے (امن و عافیت دے کر) تمہاری تعداد زیادہ کردی، اور پھر غور کرو جن لوگوں نے فساد کا شیوہ اختیار کیا تھا انہیں کیسا کچھ انجام پیش آچکا ہے؟
* اللہ کے راستے سے روکنے کے لئے اللہ کے راستے میں کجیاں تلاش کرنا۔ یہ ہر دور کے نافرمانوں کا محبوب مشغلہ رہا جس کے نمونے آج کل کے متجددین اور فرنگیت زدہ لوگوں میں بھی نظر آتے ہیں ۔ أَعَاذَنَا اللهُ مِنْهُ. علاوہ ازیں راستے میں بیٹھنے کے اور بھی کئی مفہوم بیان کئے گئے ہیں ۔ مثلاً لوگوں کو ستانے کے لئے بیٹھنا، جیسے عام طور پر اوباش قسم کے لوگوں کا شیوہ ہے۔ یا حضرت شعیب (عليہ السلام) کی طرف جانے والے راستوں میں بیٹھنا تاکہ ان کے پاس جانے والوں کو روکیں اور ان سے انہیں بدظن کریں، جیسے قریش مکہ کرتے تھے یا دین کے راستوں پر بیٹھنا اور اس راہ پر چلنے والوں کو روکنا ۔ یوں لوٹ مار کی غرض سے ناکوں پر بیٹھنا تاکہ آنے جانے والوں کا مال سلب کرلیں ۔ یا بعض کے نزدیک محصول اور چنگی وصول کرنے کے لئے ان کا راستوں پر بیٹھنا ۔ امام شوکانی فرماتے ہیں کہ سارے ہی مفہوم صحیح ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ یہ سب ہی کچھ کرتے ہوں ( فتح القدیر ) ۔