وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَالِحًا ۗ قَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ ۖ قَدْ جَاءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ ۖ هَٰذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً ۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ ۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور (١) (اسی طرح) ہم نے قوم ثمود کی طرف اس کے بھائی بندوں میں صالح کو بھیجا، اس نے کہا اے میری قوم کے لوگو ! اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، دیکھو تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک واضح دلیل تمہارے سامنے آچکی ہے۔ یہ خدا کے نام پر چھوڑی ہوئی اونٹنی تمہارے لیے ایک (فیصلہ کن) نشانی ہے۔ پس اسے کھلا چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں جہاں چاہے چرے، اسے کسی طرح کا نقصان نہ پہنچاؤ کہ (اس کی پاداش میں) عذاب جانکاہ تمہیں آپکڑے۔
1- یہ ثمود، حجاز اور شام کے درمیان وادی القریٰ میں رہائش پذیر تھے۔ ٩ہجری میں تبوک جاتے ہوئے رسول اللہ (ﷺ) اور آپ کے صحابہ (رضی الله عنہم) کا ان کے مساکن اور وادی سے گزر ہوا، جس پر آپ (ﷺ) نے صحابہ (رضی الله عنہم) سے فرمایا کہ معذب قوموں کے علاقے سے گزرو تو روتے ہوئے یعنی عذاب الٰہی سے پناہ مانگتے ہوئے گزرو ( صحيح بخاری ، كتاب الصلاة، باب الصلاة في مواضع الخسف، صحيح مسلم، كتاب الزهد، باب لا تدخلوا مساكن الذين ظلموا أنفسهم إلا أن تكونوا باكين ) ان کی طرف حضرت صالح (عليہ السلام) نبی بناکر بھیجے گئے ۔ یہ عاد کے بعد کا واقعہ ہے ۔ انہوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبہ کیا کہ پتھر کی چٹان سے ایک اونٹنی نکال کر دکھا، جسے نکلتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں ۔ حضرت صالح (عليہ السلام) نے ان سے عہد لیا کہ اس کے بعد بھی اگر ایمان نہ لائے تو وہ ہلاک کردیئے جائیں گے ۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کے مطالبے پر اونٹنی ظاہر فرما دی۔ اس اونٹنی کی بابت انہیں تاکید کردی گئی، کہ اسے بری نیت سے کوئی شخص ہاتھ نہ لگائے ورنہ عذاب الٰہی کی گرفت میں آجاؤ گے ۔ لیکن ان ظالموں نے اس اونٹنی کو بھی قتل کر ڈالا، جس کے تین دن بعد انہیں چنگھاڑا (صَيْحَةٌ ۔ سخت چیخ اور رَجْفَةٌ ۔ زلزلہ ) کے عذاب سے ہلاک کردیا گیا، جس سے وہ اپنے گھروں میں اوندھے کے اوندھے پڑے رہ گئے۔