وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا وَادْعُوهُ خَوْفًا وَطَمَعًا ۚ إِنَّ رَحْمَتَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِينَ
اور (دیکھو) ملک کی درستی کے بعد (یعنی دعوت حق کے ظہور کے بعد جو اس کی درستی کی دعوت ہے) اس میں خرابی نہ پھیلاؤ۔ (اپنی خطاؤں سے) ڈرتے ہوئے اور (اس کی رحمت سے) امیدیں رکھتے ہوئے اس کے حضور دعائیں کرو۔ یقینا اللہ کی رحمت ان سے نزدیک ہے جو نیک کردار ہیں۔
* ان آیات میں چار چیزوں کی تلقین کی گئی ہے: 1- اللہ تعالیٰ سے آہ وزاری اور خفیہ طریقے سے دعا کی جائے جس طرح کہ حدیث میں بھی آتا ہے ۔ لوگو ! اپنے نفس کے ساتھ نرمی کرو (یعنی آواز پست رکھو ) تم جس کو پکار رہے ہو، وہ بہرا ہے نہ غائب، وہ تمہاری دعائیں سننے والا اور قریب ہے۔ (صحيح بخاری ، كتاب الدعوات، باب الدعاء إذا علا عقبة - ومسلم - كتاب الجنة ، باب استحباب خفض الصوت بالذكر) 2- دعا میں زیادتی نہ کی جائے یعنی اپنی حیثیت اور مرتبے سے بڑھ کر دعا نہ کی جائے۔ 3- اصلاح کے بعد فساد نہ پھیلایا جائے یعنی اللہ کی نافرمانیاں کرکے فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیا جائے۔ 4- اس کے عذاب کا ڈر بھی دل میں ہو اور اس کی رحمت کی امید بھی ۔ اس طریقے سے دعا کرنے والے محسنین ہیں ۔ یقیناً اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے ۔