أَهَٰؤُلَاءِ الَّذِينَ أَقْسَمْتُمْ لَا يَنَالُهُمُ اللَّهُ بِرَحْمَةٍ ۚ ادْخُلُوا الْجَنَّةَ لَا خَوْفٌ عَلَيْكُمْ وَلَا أَنتُمْ تَحْزَنُونَ
(انہوں نے جنتیوں کی طرف اشارہ کر کے کہا) دیکھو کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھا کھا کر کہا کرتے تھے کہ خدا کی رحمت سے انہیں کچھ ملنے والا نہیں؟ (لیکن انہیں تو آج رحمت الہی پکار رہی ہے) جنت میں داخل ہوجاؤ، آج تمہارے لیے نہ تو کسی طرح کا اندیشہ ہے نہ کسی طرح کی غمگینی۔
1- اس سے مراد وہ اہل ایمان ہیں جو دنیا میں غریب ومسکین اور مفلس ونادار قسم کے تھے جن کا استہزا مذکورہ متکبرین اڑایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اگر یہ اللہ کے محبوب ہوتے تو ان کا دنیا میں یہ حال ہوتا؟ پھر مزید جسارت کرتے ہوئے دعویٰ کرتے کہ قیامت والے دن بھی اللہ کی رحمت ہم پر ہوگی (جس طرح دنیا میں ہورہی ہے) نہ کہ ان پر۔ بعض نے اس کا قائل اصحاب الاعراف کو بتلایا ہے اور بعض کہتے ہیں جب اصحاب الاعراف جہنمیوں کو یہ کہیں گے تمہارا جتھہ اور تمہارا اپنے کو بڑا سمجھنا تمہارے کچھ کام نہ آیا تو اس وقت اللہ کی طرف سے جنتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جائے گا کہ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں تم قسمیں کھاتے تھے کہ ان پر اللہ کی رحمت نہیں ہوگی۔( تفسیر ابن کثیر)