يَا بَنِي آدَمَ قَدْ أَنزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِي سَوْآتِكُمْ وَرِيشًا ۖ وَلِبَاسُ التَّقْوَىٰ ذَٰلِكَ خَيْرٌ ۚ ذَٰلِكَ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ
اے اولاد (١) آدم ! ہم نے تمہارے لیے ایسا لباس مہیا کردیا جو جسم کی ستر پوشی کرتا ہے اور ایسی چیزیں بھی جو زیب و زینت کا ذریعہ ہیں، نیز تمہیں پرہیزگاری کی راہ دکھا دی کہ یہ تمام لباسوں سے بہتر لباس ہے۔ یہ اللہ (کے فضل و رحمت) کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے تاکہ لوگ نصیحت پذیر ہوں۔
لباس اور داڑھی جمال و جلال یہاں اللہ تعالیٰ اپنا احسان یاد دلاتا ہے کہ اس نے لباس اتارا اور ریش بھی ۔ لباس تو وہ ہے جس سے انسان اپنا ستر چھپائے اور ریش وہ ہے جو بطور زینت ، رونق اور جمال کے پہنا جائے ۔ اول تو ضروریات زندگی سے ہے اور ثانی زیادتی ہے ۔ ریش کے معنی مال کے بھی ہیں اور ظاہری پوشاک کے بھی ہیں اور جمال ، خوش لباسی کے بھی ہیں ۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ نے نیا کرتہ پہنتے ہوئے جبکہ گلے تک وہ پہن لیا فرمایا «اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیْ بِہٖ عَوْرَتِیْ وَ اَتَجَمَّلُ بِہٖ فِیْ حَیَاتِیْ» پھر فرمانے لگے : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا ہے ، فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : { جو شخص نیا کپڑا پہنے اور اس کے گلے تک پہنچتے ہی یہ دعا پڑھے ، پھر پرانا کپڑا راہ للہ دے دے تو وہ اللہ کے ذمہ میں ، اللہ کی پناہ میں اور اللہ کی حفاظت میں آ جاتا ہے ۔ زندگی میں بھی اور بعد از مرگ بھی ۔ } ۱؎ (سنن ابن ماجہ:3557 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ ] مسند احمد میں ہے : { سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ایک نوجوان سے ایک کرتہ تین درہم کا خریدا اور اسے پہنا -جب پہنچوں اور ٹخنوں تک پہنچا تو آپ نے یہ دعا پڑھی «الْحَمْدُ لِلَّہِ الَّذِی رَزَقَنِی مِنَ الرِّیَاشِ مَا أَتَجَمَّلُ بِہِ فِی النَّاسِ وَأُوَارِی بِہِ عَوْرَتِی» یہ دعا سن کر آپ سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ اسے کپڑا پہننے کے وقت پڑھتے تھے یا آپ از خود اسے پڑھ رہے ہیں ؟ فرمایا : میں نے اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ۔ } ۱؎ (مسند احمد:158/1:ضعیف) «لِبَاسُ التَّقْوَیٰ» کی دوسری قرأت «لِبَاسَ التَّقْوَیٰ» سین کے زبر سے بھی ہے -رفع سے پڑھنے والے اسے مبتدا کہتے ہیں اور اس کے بعد کا جملہ اس کی خبر ہے -عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ” اس سے مراد قیامت کے دن پرہیزگاروں کو جو لباس عطا ہو گا ، وہ ہے ۔ “ ابن جریج کا قول ہے : ” لباس تقویٰ ایمان ہے ۔ “ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ” عمل صالح ہے اور اسی سے ہنس مکھ ہوتا ہے ۔ “ عروہ رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” مراد اس سے مشیت ربانی ہے ۔ “ عبدالرحمٰن کہتے رحمہ اللہ کہتے ہیں : ” اللہ کے ڈر سے اپنی ستر پوشی کرنا لباس تقویٰ ہے ۔ “ یہ کل اقوال آپس میں ایک دوسرے کے خلاف نہیں بلکہ مراد یہ سب کچھ ہے اور یہ سب چیزیں ملی جلی اور آپس میں ایک دوسرے کے قریب قریب ہیں ۔ ایک ضعیف سند والی روایت میں حسن سے مرقوم ہے کہ { میں نے سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو منبر نبوی پر کھلی گھنڈیوں کا کرتا پہنے ہوئے کھڑا دیکھا ۔ اس وقت آپ کتوں کے مار ڈالنے اور کبوتر بازی کی ممانعت کا حکم دے رہے تھے ۔ پھر آپ نے فرمایا : لوگو اللہ سے ڈرو ! خصوصاً اپنی پوشیدگیوں میں اور چپکے چپکے کانا پھوسی کرنے میں ۔ میں نے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے ، آپ قسم کھا کر بیان فرماتے تھے کہ جو شخص جس کام کو پوشیدہ سے پوشیدہ کرے گا ، اللہ تعالیٰ اسی کی چادر اس پر اعلانیہ ڈال دے گا ۔ اگر نیک ہے تو نیک اور اگر بد ہے تو بد ۔ پھر آپ نے اسی آیت کی تلاوت کی ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:14451:ضعیف) اور فرمایا اس سے مراد خوش خلقی ہے ۔ } ہاں صحیح حدیث میں صرف اتنا مروی ہے کہ { سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن منبر پر کتوں کے قتل کرنے اور کبوتروں کے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:72/1:ضعیف)