قَالَ اهْبِطُوا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ وَلَكُمْ فِي الْأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَىٰ حِينٍ
فرمایا یہاں سے نکل جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور یہ کہ ایک خاص وقت تک وہاں کے سامان زندگی سے فائدہ اٹھاؤ گے۔
سفر ارضی کے بارے میں یہودی روایات بعض کہتے ہیں یہ خطاب آدم ، حواء ، شیطان ملعون اور سانپ کو ہے -بعض سانپ کا ذکر نہیں کرتے -یہ ظاہر ہے کہ اصل مقصد آدم علیہ السلام ہیں اور شیطان ملعون ۔ جیسے سورۃ طہٰ میں ہے آیت «اہْبِطَا مِنْہَا جَمِیعاً» ۱؎ (20-طہ:123) حواء آدم علیہ السلام کے تابع تھیں اور سانپ کا ذکر اگر صحت تک پہنچ جائے تو وہ ابلیس کے حکم میں آ گیا ۔ مفسرین نے بہت سے اقوال ذکر کئے ہیں کہ آدم کہاں اترے ؟ شیطان کہاں پھینکا گیا وغیرہ ۔ لیکن دراصل ان کا مخرج بنی اسرائیل کی روایتیں ہیں اور ان کی صحت کا علم اللہ ہی کو ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اس جگہ کے جان لینے سے کوئی فائدہ نہیں ۔ اگر ہوتا تو ان کا بیان قرآن یا حدیث میں ضرور ہوتا ۔ کہہ دیا گیا کہ اب تمہارے قرار کی جگہ زمین ہے ، وہیں تم اپنی مقررہ زندگی کے دن پورے کرو گے ۔ جیسے کہ ہماری پہلی کتاب لوح محفوظ میں اول سے ہی لکھا ہوا موجود ہے ۔ اسی زمین پر جیو گے اور مرنے کے بعد بھی اسی میں دبائے جاؤ گے اور پھر حشر و نشر بھی اسی میں ہو گا ۔ جیسے فرمان ہے «مِنْہَا خَلَقْنَـکُمْ وَفِیہَا نُعِیدُکُمْ وَمِنْہَا نُخْرِجُکُمْ تَارَۃً أُخْرَی» ۱؎ (20-طہ:55) پس اولاد آدم کے جینے کی جگہ بھی یہی اور مرنے کی جگہ بھی یہی ، قبریں بھی اسی میں اور قیامت کے دن اٹھیں گے بھی اسی سے ، پھر بدلہ دیئے جائیں گے ۔