سورة البقرة - آیت 90

بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

(افسوس ان کی شقاوت پر) کیا ہی بری قیمت ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا چکایا ! انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی سے انکار کیا، اور صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ جس کسی پر چاہتا ہے اپنا فضل کردیتا ہے (اس میں خود ان کی نسل و جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے پہلے ہی ذلیل و خوار ہوچکے تھے، لیکن اس نئے انکار سے اور زیادہ ذلت و خواری کے سزاوار ہوئے) پس اللہ کا غضب بھی ایک کے بعد ایک ان کے حصے میں آیا اور اس کا قانون یہی ہے کہ انکار حق کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) رسوا کرنے والا عذاب ہوتا ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

برا ہو حسد کا مطلب یہ ہے کہ ان یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بدلے تکذیب کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کے بدلے کفر کیا ۔ آپ کی نصرت و امداد کے بدلے مخالفت اور دشمنی کی اس وجہ سے اپنے آپ کو جس غضب الٰہی کا سزاوار بنایا وہ بدترین چیز ہے جو بہترین چیز کے بدلے انہوں نے لی اور اس کی وجہ سے سوائے حسد و بغض تکبر و عناد کے اور کچھ نہیں چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے قبیلہ میں سے نہ تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرب میں سے تھے اس لیے یہ منہ موڑ کر بیٹھ گئے حالانکہ اللہ پر کوئی حاکم نہیں وہ رسالت کے حقدار کو خوب جانتا ہے وہ اپنا فضل و کرم اپنے جس بندے کو چاہے عطا فرماتا ہے پس ایک تو توراۃ کے احکام کی پابندی نہ کرنے کی وجہ سے ان پر غضب نازل ہوا دوسرا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کفر کرنے کے سبب نازل ہوا ۔ یا یوں سمجھ لیجئے کہ پہلا غضب عیسیٰ علیہ السلام کو پیغمبر نہ ماننے کی وجہ سے اور دوسرا غضب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم نہ کرنے کے سبب ۔ (تفسیر ابن ابی حاتم:278/1) سدی رحمہ اللہ کا خیال ہے ۔ کہ پہلا غضب بچھڑے کے پوجنے کے سبب تھا دوسرا غضب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کی بناء پر ۔ چونکہ یہ حسد و بغض کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت سے منکر ہوئے تھے اور اس حسد بغض کا اصلی باعث ان کا تکبر تھا اس لیے انہیں ذلیل عذابوں میں مبتلا کر دیا گیا تاکہ گناہ کا بدلہ پورا ہو جائے جیسے فرمان ہے «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ( 40 ۔ غافر : 60 ) میری عبادت سے جو بھی تکبر کریں گے وہ ذلیل ہو کر جہنم میں داخل ہوں گے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں متکبر لوگوں کا حشر قیامت کے دن انسانی صورت میں چیونٹیوں کی طرح ہو گا جنہیں تمام چیزیں روندتی ہوئی چلیں گی اور جہنم کے ” بولس “ نامی قید خانے میں ڈال دیئے جائیں گے جہاں کی آگ دوسری تمام آگوں سے تیز ہو گی اور جہنمیوں کا لہو پیپ وغیرہ انہیں پلایا جائے گا ۔ (سنن ترمذی:2492 ، قال الشیخ الألبانی:حسن )