وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ
اے آدم ! تو اور تیری بیوی دونوں جنت میں رہو سہو اور جس جگہ سے جو چیز پسند آئے شوق سے کھاؤ، مگر دیکھو (وہ جو ایک درخت ہے تو) اس درخت کے قریب بھی نہ جانا، اگر گئے تو یاد رکھو تم زیادتی کرنے والوں میں سے ہوجاؤ گے۔
پہلا امتحان اور اسی میں لغزش اور اس کا انجام ابلیس کو نکال کر آدم و حواء علیہم السلام کو جنت میں پہنچا دیا گیا اور بجز ایک درخت کے ، انہیں ساری جنت کی چیزیں کھانے کی رخصت دے دی گئی ۔ اس کا تفصیلی بیان سورۃ البقرہ کی تفسیر میں گزر چکا ہے ۔ شیطان کو اس سے بڑا ہی حسد ہوا ، ان کی نعمتوں کو دیکھ کر لعین جل گیا اور ٹھان لی کہ جس طرح سے ہو ، انہیں بہکا کر اللہ کے خلاف کرا دوں ۔ چنانچہ جھوٹ ، افتراء باندھ کر ان سے کہنے لگا کہ دیکھو یہ درخت وہ ہے جس کے کھانے سے تم فرشتے بن جاؤ گے اور ہمیشہ کی زندگی اسی جنت میں پاؤ گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے کہ ابلیس نے کہا : میں تمہیں ایک درخت کا پتہ دیتا ہوں جس سے تمہیں بقاء اور ہمیشگی والا ملک مل جائے گا ۔ یہاں ہے کہ ان سے کہا : تمہیں اس درخت سے اس لیے روکا گیا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ ۔ جیسے فرمان ہے «یُبَیِّنُ اللہُ لَکُمْ أَن تَضِلٰواْ» ۱؎ (4-النساء:176) مطلب یہ ہے کہ «أَن لَّا تَضِلٰواْ» اور آیت میں ہے «وَأَلْقَی فِی الاٌّرْضِ رَوَاسِیَ أَن تَمِیدَ بِکُمْ» ۱؎ (16-النحل:15) «أَن تَمِیدَ بِکُمْ» یہاں بھی یہی مطلب ہے ۔ «مَلَکَیْنِ» کی دوسری قرأت «مَلِکَیْنِ» بھی ہے لیکن جمہور کی قرأت «لام» کے زبر کے ساتھ ہے ۔ پھر اپنا اعتبار جمانے کیلئے قسمیں کھانے لگا کہ دیکھو میری بات کو سچ مانو ، میں تمہارا خیرخواہ ہوں ۔ تم سے پہلے سے ہی یہاں رہتا ہوں ، ہر ایک چیز کے خواص سے واقف ہوں ۔ تم اسے کھا لو ، بس پھر یہیں رہو گے بلکہ فرشتے بن جاؤ گے ۔ «قَاسَمَ» گو باب «مفاعلہ» سے ہے اور اس کی خاصیت طرفین کی مشارکت ہے لیکن یہاں یہ خاصیت نہیں ہے ۔ ایسے اشعار بھی ہیں جہاں «قَاسَمَ» آیا ہے اور صرف ایک طرف کے لیے ۔ اس قسم کی وجہ سے اس خبیث کے بہکاوے میں آدم علیہ السلام آ گئے ۔ سچ ہے ! مومن اس وقت دھوکا کھا جاتا ہے جب کوئی ناپاک انسان اللہ کو بیچ میں دیتا ہے ۔ چنانچہ سلف کا قول ہے کہ ہم اللہ کے نام کے بعد اپنے ہتھیار ڈال دیا کرتے ہیں ۔