وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور (٢) (دیکھو یہ ہماری ہی کار فرمائی ہے کہ) ہم نے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارا وجود پیدا کیا) پھر تمہاری (یعنی نوع انسانی کی) شکل و صورت بنا دی پھر (وہ وقت آیا کہ) فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے جھک جاؤ، اس پر سب جھک گئے مگر ابلیس کہ جھکنے والوں میں سے نہ تھا۔
ابلیس، آدم علیہ السلام اور نسل آدم انسان کے شرف کو اس طرح بیان فرماتا ہے کہ تمہارے باپ آدم کو میں نے خود ہی بنایا اور ابلیس کی عداوت کو بیان فرما رہا ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم کا حسد کیا ۔ ہمارے فرمان سے سب فرشتوں نے سجدہ کیا مگر اس نے نافرمانی کی ۔ پس تمہیں چاہئے کہ دشمن کو دشمن سمجھو اور اس کے داؤ پیچ سے ہوشیار رہو ۔ اسی واقعہ کا ذکر آیت «وَإِذْ قَالَ رَبٰکَ لِلْمَلَائِکَۃِ إِنِّی خَالِقٌ بَشَرًا مِّن صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَإٍ مَّسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّیْتُہُ وَنَفَخْتُ فِیہِ مِن رٰوحِی فَقَعُوا لَہُ سَاجِدِینَ فَسَجَدَ الْمَلَائِکَۃُ کُلٰہُمْ أَجْمَعُونَ إِلَّا إِبْلِیسَ أَبَیٰ أَن یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ» ۱؎ (15-الحجر28-30) آدم علیہ السلام کو پروردگار نے اپنے ہاتھ سے مٹی سے بنایا ، انسانی صورت عطا فرمائی ۔ پھر اپنے پاس سے اس میں روح پھونکی ۔ پھر اپنی شان کی جلالت منوانے کیلئے فرشتوں کو حکم دیا کہ ان کے سامنے جھک جاؤ ۔ سب نے سنتے ہی اطاعت کی لیکن ابلیس نہ مانا ۔ اس واقعہ کو سورۃ البقرہ کی تفسیر میں ہم خلاصہ وار لکھ آئے ہیں ۔ اس آیت کا بھی یہی مطلب ہے اور اسی کو امام ابن جریر رحمہ اللہ نے بھی پسند فرمایا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انسان اپنے باپ کی پیٹھ سے پیدا کیا جاتا ہے اور اپنی ماں کے پیٹ میں صورت دیا جاتا ہے اور بعض سلف نے بھی لکھا ہے کہ اس آیت میں مراد اولاد آدم علیہ السلام ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ آدم کو پیدا کیا پھر اس کی اولاد کی صورت بنائی ۔ لیکن یہ سب اقوال غور طلب ہیں کیونکہ آیت میں اس کے بعد ہی فرشتوں کے سجدے کا ذکر ہے اور ظاہر ہے کہ سجدہ آدم علیہ السلام کے لیے ہی ہوا تھا ۔ جمع کے صیغہ سے اس کا بیان اس لیے ہوا کہ آدم علیہ السلام تمام انسانوں کے باپ ہیں آیت «وَظَلَّلْنَا عَلَیْکُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَیْکُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَیٰ» ۱؎ (2-البقرۃ:57) اسی کی نظیر ہے ۔ یہاں خطاب ان بنی اسرائیل سے ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موجود تھے اور دراصل ابر کا سایہ ان کے سابقوں پر ہوا تھا جو موسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں تھے نہ کہ ان پر ۔ لیکن چونکہ ان کے اکابر پر سایہ کرنا ایسا احسان تھا کہ ان کو بھی اس کا شکر گزار ہونا چاہیئے تھا ۔ اس لیے انہی کو خطاب کر کے اپنی وہ نعمت یاد دلائی ، یہاں یہ بات واضح ہے ۔ اس کے بالکل برعکس آیت «وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ مِن سُلَالَۃٍ مِّن طِینٍ ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَۃً فِی قَرَارٍ مَّکِینٍ» ۱؎ (23-المؤمنون:12) ہے کہ مراد آدم علیہ السلام ہیں کیونکہ صرف وہی مٹی سے بنائے گئے ۔ ان کی کل اولاد نطفے سے پیدا ہوئی اور یہی صحیح ہے کیونکہ مراد جنس انسان ہے نہ کہ معین ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ»