وَهَٰذَا صِرَاطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًا ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ
اور یہ (اسلام) تمہارے پروردگار کا (بتایا ہوا) سیدھا سیدھا راستہ ہے۔ جو لوگ نصیحت قبول کرتے ہیں، ان کے لیے ہم نے (اس راستے کی) نشانیاں کھول کھول کر بیان کردی ہیں۔
قرآن حکیم ہی صراط مستقیم کی تشریح ہے گمراہوں کا طریقہ بیان فرما کر اپنے اس دین حق کی نسبت فرماتا ہے کہ ’ سیدھی اور صاف راہ جو بے روک اللہ کی طرف پہنچا دے ‘ یہی ہے «مُسْتَقِیمًا» کا نصب حالیت کی وجہ سے ہے -پس شرع محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کلام باری تعالیٰ ہی راہ راست ہے ۔ چنانچہ حدیث میں بھی قرآن کی صفت میں کہا گیا ہے کہ { اللہ کی سیدھی راہ اللہ کی مضبوط رسی اور حکمت والا ذکر یہی ہے } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:2906،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) [ ملاحظہ ہو ترمذی مسند وغیرہ ] جنہیں اللہ کی جانب سے عقل و فہم و عمل دیا گیا ہے ان کے سامنے تو وضاحت کے ساتھ اللہ کی آیتیں آچکیں ۔ ان ایمانداروں کیلئے اللہ کے ہاں جنت ہے ، جیسے کہ یہ سلامتی کی راہ یہاں چلے ویسے ہی قیامت کے دن سلامتی کا گھر انہیں ملے گا ۔ وہی سلامتیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ان کا کار ساز اور دلی دوست ہے ۔ حافظ و ناصر موید و مولٰی ان کا وہی ہے ان کے نیک اعمال کا بدلہ یہ پاک گھر ہو گا جہاں ہمیشگی ہے اور یکسر راحت و اطمینان ، سرور اور خوشی ہی خوشی ہے ۔