قَدْ جَاءَكُم بَصَائِرُ مِن رَّبِّكُمْ ۖ فَمَنْ أَبْصَرَ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ عَمِيَ فَعَلَيْهَا ۚ وَمَا أَنَا عَلَيْكُم بِحَفِيظٍ
(اے پیغمبر ! ان لوگوں سے کہو کہ) تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے بصیرت کے سامان پہنچ چکے ہیں۔ اب جو شخص آنکھیں کھول کر دیکھے گا، وہ اپنا ہی بھلا کرے گا، اور جو شخص اندھا بن جائے گا، وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔ اور مجھے تمہاری حفاظت کی ذمہ داری نہیں سونپی گئی ہے۔ (٤٢)
ہدایت و شفا قرآن و حدیث میں ہے «بَصَائِرُ» سے مراد دلیلیں اور حجتیں ہیں جو قرآن و حدیث میں موجود ہیں جو انہیں دیکھے اور ان سے نفع حاصل کرے وہ اپنا ہی بھلا کرتا ہے -جیسے فرمان ہے کہ «مَّنِ اہْتَدَیٰ فَإِنَّمَا یَہْتَدِی لِنَفْسِہِ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا یَضِلٰ عَلَیْہَا» ۱؎ (17-الإسراء:15) ’ راہ پانے والا اپنے لیے راہ پاتا ہے اور گمراہ ہونے والا اپنا ہی بگاڑتا ہے ‘ ۔ یہاں بھی فرمایا ’ اندھا اپنا ہی نقصان کرتا ہے کیونکہ آخر گمراہی کا اسی پر اثر پڑتا ہے ‘ ۔ جیسے ارشاد ہے «فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلٰکِن تَعْمَی الْقُلُوبُ الَّتِی فِی الصٰدُورِ» ۱؎ (22-الحج:46) ’ آنکھیں اندھی نہیں ہوتی بلکہ سینوں کے اندر دل اندھے ہو جاتے ہیں ‘ ۔ میں تم پر نگہبان حافظ چوکیدار نہیں بلکہ میں تو صرف مبلغ ہوں ہدایت اللہ کے ہاتھ ہے ، جس طرح توحید کے دلائل واضح فرمائے اسی طرح اپنی آیتوں کو کھول کھول کر تفسیر اور وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا تاکہ کوئی جاہل نہ رہ جائے اور مشرکین مکذبین اور کافرین یہ نہ کہہ دیں کہ تو نے اے نبی [ صلی اللہ علیہ وسلم ] اہل کتاب سے یہ درس لیا ہے ان سے پڑھا ہے انہی نے تجھے سکھایا ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ معنی بھی مروی ہیں کہ ” تو نے پڑھ سنایا تو نے جھگڑا کیا “ ، تو یہ اسی آیت کی طرح آیت ہوگی جہاں بیان ہے «وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ ہَذَا إِلَّا إِفْکٌ افْتَرَاہُ وَأَعَانَہُ عَلَیْہِ قَوْمٌ آخَرُونَ فَقَدْ جَاءُوا ظُلْمًا وَزُورًا وَقَالُوا أَسَاطِیرُ الْأَوَّلِینَ اکْتَتَبَہَا فَہِیَ تُمْلَی عَلَیْہِ بُکْرَۃً وَأَصِیلًا» ۱؎ (25-الفرقان:5-4) ’ کافروں نے کہا کہ یہ تو صرف بہتان ہے جسے اس نے گھڑ لیا ہے اور دوسروں نے اس کی تائید کی ہے ‘ ۔ اور آیتوں میں ان کے بڑے کا قول ہے کہ «إِنَّہُ فَکَّرَ وَقَدَّرَ فَقُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ قُتِلَ کَیْفَ قَدَّرَ ثُمَّ نَظَرَ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَکْبَرَ فَقَالَ إِنْ ہٰذَا إِلَّا سِحْرٌ یُؤْثَرُ إِنْ ہٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ» ۱؎ (74-المدثر:18-25) ’ اس نے بہت کچھ غور وخوض کے بعد فیصلہ کیا کہ یہ تو چلتا ہوا جادو ہے ، یقیناً یہ انسانی قول ہے اور اس لیے کہ ہم علماء کے سامنے وضاحت کر دیں تاکہ وہ حق کے قائل اور باطل کے دشمن بن جائیں ‘ ۔ رب کی مصلحت وہی جانتا ہے کہ جو ایک گروہ کو ہدایت اور دوسرے کو ضلالت عطا کرتا ہے ، جیسے فرمایا «یُضِلٰ بِہِ کَثِیرًا وَیَہْدِی بِہِ کَثِیرًا وَمَا یُضِلٰ بِہِ إِلَّا الْفَاسِقِینَ» ۱؎ (2-البقرہ:26) ’ اس کے ساتھ بہت کو ہدایت کرتا ہے اور بہت کو گمراہ کرتا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے «لِّیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَۃً لِّلَّذِینَ فِی قُلُوبِہِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِیَۃِ قُلُوبُہُمْ وَإِنَّ الظَّالِمِینَ لَفِی شِقَاقٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (22-الحج:53) ’ تاکہ وہ شیطان کے القا کو بیمار دلوں کیلئے سبب فتنہ کر دے ‘ ۔ اور فرمایا آیت «وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰیِٕکَۃً ۠ وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا» ۱؎ (74-المدثر:31) یعنی ’ ہم نے دوزخ کے پاسبان فرشتے مقرر کئے ہیں ان کی مقررہ تعداد بھی کافروں کے لیے فتنہ ہے تاکہ اہل کتاب کامل یقین کرلیں ایماندار ایمان میں بڑھ جائیں اہل کتاب اور مومن شک شبہ سے الگ ہو جائیں اور بیمار دل کفر والے کہتے ہیں کہ اس مثال سے اللہ کی کیا مراد ہے اسی طرح جسے اللہ چاہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہے راہ راست دکھاتا ہے ، تیرے رب کے لشکروں کو بجز اس کے کوئی نہیں جانتا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ہُوَ شِفَاءٌ وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ وَلَا یَزِیْدُ الظّٰلِمِیْنَ اِلَّا خَسَارًا» (17-الاسراء:82) یعنی ’ ہم نے قرآن اتارا ہے جو مومنوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے البتہ ظالموں کو تو نقصان ہی ملتا ہے ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «قُلْ ہُوَ لِلَّذِینَ آمَنُوا ہُدًی وَشِفَاءٌ وَالَّذِینَ لَا یُؤْمِنُونَ فِی آذَانِہِمْ وَقْرٌ وَہُوَ عَلَیْہِمْ عَمًی أُولٰئِکَ یُنَادَوْنَ مِن مَّکَانٍ بَعِیدٍ» ۱؎ (41-فصلت:44) ’ یہ ایمان والوں کے لیے ہدایت و شفاء ہے اور بے ایمان وں کے کانوں میں بوجھ ہے اور ان پر اندھا پن غالب ہے یہ دور کی جگہ سے پکارے جا رہے ہیں ‘ ۔ اور بھی اس مضمون کی بہت سی آیتیں ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن سے لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں اور گمراہ بھی ہوتے ہیں ۔ «دَارَسْتَ» کی دوسری قرأت «دَرَسْتَ» بھی ہے یعنی پڑھا اور سیکھا اور یہ معنی ہیں کہ اسے تو مدت گزر چکی یہ تو تو پہلے سے لایا ہوا ہے ، یہ تو تو پڑھایا گیا ہے اور سکھایا گیا ہے ۔ ایک قرأت میں «دَرَسَ» بھی ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:70/3:) لیکن یہ غریب ہے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے «درَسْتَ» پڑھایا ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:70/3:)