وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ
وہی ہے جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر ہر شخص کا ایک مستقر ہے، اور ایک امانت رکھنے کی جگہ (٣٧)۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کرکے کھول دی ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو سمجھ سے کام لیں۔
قدرت کی نشانیاں فرماتا ہے کہ ’ تم سب انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے تن واحد یعنی آدم سے پیدا کیا ہے ‘ -جیسے اور آیت میں ہے «یَا أَیٰہَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّکُمُ الَّذِی خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ» ۱؎ (4-النساء:1) ’ لوگو اپنے اس رب سے ڈور جس نے تمہیں ایک نفس سے پیدا کی اسی سے اس کا جوڑ پیدا کیا پھر ان دونوں سے مرد و عورت خوب پھیلا دیئے ‘ ۔ «مُسْتَقَرٌّ» سے مراد ماں کا پیٹ اور «مُسْتَوْدَعٌ» سے مراد باپ کی پیٹھ ہے اور قول ہے کہ جائے قرار دنیا ہے اور سپردگی کی جگہ موت کا وقت ہے ۔ سعید بن جبیر فرماتے ہیں ماں کا پیٹ ، زمین اور جب مرتا ہے سب جائے قرار کی تفسیر ہے ۔ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو مر گیا اس کے عمل رک گئے یہی مراد مستقر سے ہے ۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے مستقر آخرت میں ہے لیکن پہلا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ سمجھداروں کے سامنے نشان ہائے قدرت بہت کچھ آچکے ، اللہ کی بہت سی باتیں بیان ہو چکیں جو کافی وافی ہیں -وہی اللہ ہے جس نے آسمان سے پانی اتارا نہایت صحیح اندازے سے بڑا با برکت پانی جو بندوں کی زندگانی کا باعث بنا اور سارے جہاں پر اللہ کی رحمت بن کر برسا ، اسی سے تمام تر تروتازہ چیزیں اگیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ کُلَّ شَیْءٍ حَیٍّ اَفَلَا یُؤْمِنُوْنَ» (21-الأنبیاء:30) ’ پانی سے ہم نے ہر چیز کی زندگانی قائم کر دی ۔ پھر اس سے سبزہ یعنی کھیتی اور درخت اگتے ہیں جس میں سے دانے اور پھل نکلتے ہیں ، دانے بہت سارے ہوتے ہیں گتھے ہوئے تہ بہ تہ چڑھے ہوئے اور کھجور کے خوشے جو زمین کی طرف جھکے پڑتے ہیں ۔ بعض درخت خرما چھوٹے ہوتے ہیں اور خوشے چمٹے ہوئے ہوتے ہیں ‘ ۔ «قِنْوَانٌ» کو قبیلہ تمیم «قِنْیَانٌ» کہتا ہے اس کا مفرد «قِنْوٍ» ہے ، جیسے «صِنْوَانٌ» «صِنْوٍ » کی جمع ہے اور باغات انگوروں کے ۔ پس عرب کے نزدیک یہی دنوں میوے سب میوں سے اعلیٰ ہیں کھجور اور انگور اور فی الحقیقت ہیں بھی یہ اسی درجے کے ۔ قرآن کی دوسری آیت «وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَـنًا اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ» ۱؎ (16۔النحل:67) میں اللہ تعالیٰ نے ان ہی دونوں چیزوں کا ذکر فرما کر اپنا احسان بیان فرمایا ہے اس میں جو شراب بنانے کا ذکر ہے اس پر بعض حضرات کہتے ہیں کہ حرمت شراب کے نازل ہونے سے پہلے کی یہ آیت ہے ۔ اور آیت میں بھی باغ کے ذکر میں فرمایا کہ «وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ» (36-یس:34) ’ ہم نے اس میں کھجور و انگور کے درخت پیدا کئے تھے ‘ ۔ زیتون بھی ہیں انار بھی ہیں آپس میں ملتے جلتے پھل الگ الگ ، شکل صورت مزہ حلاوت فوائد و غیرہ ہر ایک کے جدا گانہ ، ان درختوں میں پھلوں کا آنا اور ان کا پکنا ملاحظہ کر اور اللہ کی ان قدرتوں کا نظارہ اپنی آنکھوں سے کرو کہ لکڑی میں میوہ نکالتا ہے ۔ عدم وجود میں لاتا ہے ۔ سوکھے کو گیلا کرتا ہے ۔ مٹھاس لذت خوشبو سب کچھ پیدا کرتا ہے رنگ روپ شکل صورت دیتا ہے فوائد رکھتا ہے ۔ جیسے اور جگہ فرمایا ہے کہ «وَفِی الْأَرْضِ قِطَعٌ مٰتَجَاوِرَاتٌ وَجَنَّاتٌ مِّنْ أَعْنَابٍ وَزَرْعٌ وَنَخِیلٌ صِنْوَانٌ وَغَیْرُ صِنْوَانٍ یُسْقَیٰ بِمَاءٍ وَاحِدٍ وَنُفَضِّلُ بَعْضَہَا عَلَیٰ بَعْضٍ فِی الْأُکُلِ إِنَّ فِی ذٰلِکَ لَآیَاتٍ لِّقَوْمٍ یَعْقِلُونَ» ۱؎ (13-الرعد:4) ’ پانی ایک زمین ایک کھیتیاں باغات ملے جلے لیکن ہم جسے چاہیں جب چاہیں بنا دیں کھٹاس مٹھاس کمی زیادتی سب ہمارے قبضہ میں ہے یہ سب خالق کی قدرت کی نشانیاں ہیں جن سے ایماندار اپنا عقیدہ مضبوط کرتے ہیں ‘ ۔