إِنَّ اللَّهَ فَالِقُ الْحَبِّ وَالنَّوَىٰ ۖ يُخْرِجُ الْحَيَّ مِنَ الْمَيِّتِ وَمُخْرِجُ الْمَيِّتِ مِنَ الْحَيِّ ۚ ذَٰلِكُمُ اللَّهُ ۖ فَأَنَّىٰ تُؤْفَكُونَ
بیشک اللہ ہی دانے اور گٹھلی کو پھاڑنے والا ہے۔ وہ جاندار چیزوں کو بے جان چیزوں سے نکال لاتا ہے، اور وہی بے جان چیزوں کو جاندار چیزوں سے نکالنے والا ہے۔ (٣٥) لوگو ! وہ ہے اللہ پھر کوئی تمہیں بہکا کر کس اوندھی طرف لئے جارہا ہے ؟ (٣٦)
اس کی حیرت ناک قدرت دانوں سے کھیتیاں بیج اور گٹھلی سے درخت اللہ ہی اگاتا ہے تم تو انہیں مٹی میں ڈال کر چلے آتے ہو وہاں انہیں اللہ تعالیٰ پھاڑتا ہے ۔ کونپل نکالتا ہے پھر وہ بڑھتے ہیں قوی درخت بن جاتے ہیں اور دانے اور پھل پیدا ہوتے ہیں ۔ پھر گویا اسی کی تفسیر میں فرمایا کہ زندہ درخت اور زندہ کھیتی کو مردہ بیج اور مردہ دانے سے وہ نکالتا ہے ۔ جیسے سورۃ یٰسین میں ارشاد ہے آیت «وَاٰیَۃٌ لَّہُمُ الْاَرْضُ الْمَیْتَۃُ اَحْیَیْنٰہَا وَاَخْرَجْنَا مِنْہَا حَبًّا فَمِنْہُ یَاْکُلُوْنَ وَجَعَلْنَا فِیہَا جَنَّاتٍ مِّن نَّخِیلٍ وَأَعْنَابٍ وَفَجَّرْنَا فِیہَا مِنَ الْعُیُونِ لِیَأْکُلُوا مِن ثَمَرِہِ وَمَا عَمِلَتْہُ أَیْدِیہِمْ ۖ أَفَلَا یَشْکُرُونَ سُبْحَانَ الَّذِی خَلَقَ الْأَزْوَاجَ کُلَّہَا مِمَّا تُنبِتُ الْأَرْضُ وَمِنْ أَنفُسِہِمْ وَمِمَّا لَا یَعْلَمُونَ» ۱؎ (36-یس:36-33) ’ اور ایک نشانی ان کے لیے زمین مردہ ہے کہ ہم نے اس کو زندہ کیا اور اس میں سے اناج اُگایا ۔ پھر یہ اس میں سے کھاتے ہیں اور اس میں کھجوروں اور انگوروں کے باغ پیدا کیے اور اس میں چشمے جاری کر دیئے تاکہ یہ ان کے پھل کھائیں اور ان کے ہاتھوں نے تو ان کو نہیں بنایا تو پھر یہ شکر کیوں نہیں کرتے ؟ وہ خدا پاک ہے جس نے زمین کی نباتات کے اور خود ان کے اور جن چیزوں کی ان کو خبر نہیں سب کے جوڑے بنائے ‘ ۔ «مُخْرِجُ» کا عطف «فَالِقُ» پر ہے اور مفسرین نے دوسرے انداز سے ان جملوں میں ربط قائم کیا ہے لیکن مطلب سب کا یہی ہے اور اسی کے قریب قریب ہے ، کوئی کہتا ہے مرغی کا انڈے سے نکلنا اور مرغ سے انڈے کا نکلنا مراد ہے ۔ بد شخص کے ہاں نیک اولاد ہونا اور نیکوں کی اولاد کا بد ہونا مراد ہے ، وغیرہ ۔ آیت درحقیقت ان تمام صورتوں کو گھیرے ہوئے ہے ۔ پھر فرماتا ہے ’ ان تمام کاموں کا کرنے والا اکیلا اللہ ہی ہے پھر کیا وجہ کہ تم حق سے پھر جاتے ہو ؟ اور اس لا شریک کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے لگتے ہو ؟ ‘ «وَالضٰحَی وَاللَّیْلِ إِذَا سَجَی» (93-الضحی:1-2) ’ وہی دن کی روشنی کا لانے والا اور رات کے اندھیرے کا پیدا کرنے والا ہے ‘ ۔ جیسے کہ اس سورت کے شروع میں فرمایا تھا کہ «الْحَمْدُ لِلہِ الَّذِی خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَجَعَلَ الظٰلُمَاتِ وَالنٰورَ» ۱؎ (6-الأنعام:1) ’ وہی نور و ظلمت کا پیدا کرنے والا ہے ۔ رات کے گھٹا ٹوپ اندھیرے کو دن کی نورانیت سے بدل دیتا ہے ‘ ۔ «وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ وَالنَّہَارِ إِذَا تَجَلَّیٰ» ۱؎ (92-اللیل:1-2) ’ رات اپنے اندھیروں سمیت چھپ جاتی ہے اور دن اپنی تجلیوں سمیت کائنات پر قبضہ جما لیتا ہے ‘ ، «وَالنَّہَارِ إِذَا جَلَّاہَا وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَاہَا» ۱؎ (91-الشمس:3-4) جیسے فرمان ہے «یُغْشِی اللَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہُ حَثِیثًا» ۱؎ (7-الأعراف:54) ’ وہی دن رات چڑھاتا ہے ‘ ۔ الغرض چیز اور اس کی ضد اس کے زیر اختیار ہے اور یہ اس کی بے انتہا عظمت اور بہت بڑی سلطنت پر دلیل ہے ۔ دن کی روشنی اور اس کی چہل پہل کی ظلمت اور اس کا سکون اس کی عظیم الشان قدرت کی نشانیاں ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَالضٰحٰی وَالَّیْلِ اِذَا سَـجٰی» (93-الضحی:1-2) اور جیسے اس آیت میں فرمایا آیت «وَالَّیْلِ اِذَا یَغْشٰی وَالنَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی» ۱؎ (92۔اللیل:1-2) اور آیت میں ہے «وَالنَّہَارِ اِذَا جَلّٰیہَا وَاللَّیْلِ اِذَا یَغْشٰـیہَا» (91-والشمس:3-4) ان تمام آیتوں میں دن رات کا اور نور و ظلمت روشنی اور اندھیرے کا ذکر ہے ۔ حضرت صہیب رومی رحمتہ اللہ علیہ سے ایک بار ان کی بیوی صاحبہ نے کہا کہ رات ہر ایک کے لیے آرام کی ہے لیکن میرے خاوند صہیب کے لیے وہ بھی آرام کی نہیں اس لیے کہ وہ رات کو اکثر حصہ جاگ کر کاٹتے ہیں -جب انہیں جنت یاد آتی ہے تو شوق بڑھ جاتا ہے اور یاد اللہ میں رات گزار دیتے ہیں اور جب جہنم کا خیال آ جاتا ہے تو مارے خوف کے ان کی نیند اڑ جاتی ہے ۔ سورج چاند اس کو مقرر کئے ہوئے اندازے پر برابر چل رہے ہیں کوئی تغیر اور اضطراب اس میں نہیں ہوتا ہر ایک کی منزل مقرر ہے جاڑے کی الگ گرمی کی الگ اور اسی اعتبار سے دن رات ظاہر ہوتے ہیں چھوٹے اور بڑے ہوتے ہیں ۔ جیسے فرمان ہے آیت «ھُوَ الَّذِیْ جَعَلَ الشَّمْسَ ضِیَاءً وَّالْقَمَرَ نُوْرًا وَّقَدَّرَہٗ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُوْا عَدَدَ السِّـنِیْنَ وَالْحِسَابَ» ۱؎ (10۔یونس:5) ’ اسی اللہ نے سورج کو روشن اور چاند کو منور کیا ہے ان کی منزلیں مقرر کر دی ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «لَا الشَّمْسُ یَنْبَغِیْ لَہَآ اَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلَا الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ» ۱؎ (36-یس:40) ’ نہ تو آفتاب ہی سے بن پڑتا ہے کہ چاند کو جا لے اور نہ رات دن پر سبق لے سکتی ہے ہر ایک اپنے فلک میں تیرتا پھرتا ہے ‘ اور جگہ فرمایا «وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنٰجُومَ مُسَخَّرَاتٍ بِأَمْرِہِ» ۱؎ (7-الأعراف:54) ، ’ سورج چاند ستارے سب اس کے فرمان کے ماتحت ہیں ‘ ۔ یہاں فرمایا ’ یہ سب اندازے اس اللہ کے مقرر کردہ ہیں جسے کوئی روک نہیں سکتا جس کے خلاف کوئی کچھ نہیں کر سکتا ۔ جو ہر چیز کو جانتا ہے جس کے علم سے ایک ذرہ باہر نہیں ۔ زمین و آسمان کی کوئی مخلوق اس سے پوشیدہ نہیں ‘ ۔ عموماً قرآن کریم جہاں کہیں رات دن سورج چاند کی پیدائش کا ذکر کرتا ہے وہاں کلام کا خاتمہ اللہ جل و علا نے اپنی عزت و علم کی خبر پر کیا ہے ، جیسے اس آیت میں اور «وَآیَۃٌ لَّہُمُ اللَّیْلُ نَسْلَخُ مِنْہُ النَّہَارَ فَإِذَا ہُم مٰظْلِمُونَ وَالشَّمْسُ تَجْرِی لِمُسْتَقَرٍّ لَّہَا ذٰلِکَ تَقْدِیرُ الْعَزِیزِ الْعَلِیمِ» ۱؎ (36۔یس:37-38) میں اور سورۃ حم سجدہ کی شروع کی آیت «وَزَیَّنَّا السَّمَاءَ الدٰنْیَا بِمَصَابِیْحَ وَحِفْظًا ذٰلِکَ تَقْدِیْرُ الْعَزِیْزِ الْعَلِیْمِ» ۱؎ (41۔فصلت:12) میں ۔ پھر فرمایا ’ ستارے تمہیں خشکی اور تری میں راہ دکھانے کے لیے ہیں ‘ ۔ بعض سلف کا قول ہے کہ ستاروں میں ان تین فوائد کے علاوہ اگر کوئی اور کچھ مانے تو اس نے خطا کی اور اللہ پر چھوٹ باندھا ایک تو یہ کہ یہ آسمان کی زینت ہیں دوسرے یہ شیاطین پر آگ بن کر برستے ہیں جبکہ وہ آسمانوں کی خبریں لینے کو چڑھیں تیسرے یہ کہ مسافروں اور مقیم لوگوں کو یہ راستہ دکھاتے ہیں ۔ پھر فرمایا ’ ہم نے عقلمندوں عالموں اور واقف کار لوگوں کیلئے اپنی آیتیں بالتفصیل بیان فرما دی ہیں ‘ ۔