وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّهِ كَذِبًا أَوْ قَالَ أُوحِيَ إِلَيَّ وَلَمْ يُوحَ إِلَيْهِ شَيْءٌ وَمَن قَالَ سَأُنزِلُ مِثْلَ مَا أَنزَلَ اللَّهُ ۗ وَلَوْ تَرَىٰ إِذِ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلَائِكَةُ بَاسِطُو أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمُ ۖ الْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ
اور اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا یہ کہے کہ مجھ پر وحی نازل کی گئی ہے، حالانکہ اس پر کوئی وحی نازل نہ کی گئی ہو، اور اسی طرح وہ جو یہ کہے کہ میں بھی ویسا ہی کلام نازل کردوں گا جیسا اللہ نے نازل کیا ہے ؟ اور اگر تم وہ وقت دیکھو (تو بڑا ہولناک منظر نظر آئے) جب ظالم لوگ موت کی سختیوں میں گرفتار ہوں گے، اور فرشتے اپنے ہاتھ پھیلائے ہوئے (کہہ رہے ہوں گے کہ) اپنی جانیں نکالو، آج تمہیں ذلت کا عذاب دیا جائے گا، اس لیے کہ تم جھوٹی باتیں اللہ کے ذمے لگاتے تھے، اور اس لئے کہ تم اس کی نشانیوں کے خلاف تکبرکا رویہ اختیار کرتے تھے۔
مغضوب لوگ اللہ پر جھوٹ باندھنے والوں سے زیادہ ظالم اور کوئی نہیں خواہ اس جھوٹ کی نوعیت یہ ہو کہ اللہ کی اولاد ہے یا اس کے کئی شریک ہیں یا یوں کہے کہ وہ اللہ کا رسول ہے حالانکہ دراصل رسول نہیں -خواہ مخواہ کہہ دے کہ میری طرف وحی نازل ہوتی ہے حالانکہ کوئی وحی نہ اتری ہو اور اس سے بڑھ کر بھی کوئی ظالم نہیں ہو جو اللہ کی سچی وحی سے صف آرائی کا مدعی ہو ۔ چنانچہ اور آیتوں میں ایسے لوگوں کا بیان ہے کہ ’ وہ قرآن کی آیتوں کو سن کر کہا کرتے تھے کہ اگر ہم چاہیں تو ہم بھی ایسا کلام کہہ سکتے ہیں ، کاش کہ تو ان ظالموں کو سکرات موت کی حالت میں دیکھتا جبکہ فرشتوں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھ رہے ہوں گے اور وہ مار پیٹ کر رہے ہونگے ‘ ۔ یہ محاورہ مار پیٹ سے ہے ، جیسے ہابیل قابیل کے قصے میں آیت «لَیِٕنْ بَسَطْتَّ اِلَیَّ یَدَکَ لِتَقْتُلَنِیْ مَآ اَنَا بِبَاسِطٍ یَّدِیَ اِلَیْکَ لِاَقْتُلَکَ اِنِّیْٓ اَخَاف اللّٰہَ رَبَّ الْعٰلَمِیْنَ» ۱؎ (5۔المائدہ:28) ہے اور آیت میں «وَّیَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَہُمْ وَاَلْسِنَتَہُمْ بالسٰوْءِ وَوَدٰوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ» ۱؎ (60-الممتحنۃ:2) ہے ۔ ضحاک اور ابوصالح رحمہ اللہ علیہم نے بھی یہی تفسیر کی ہے ۔ خود قرآن کی آیت میں «یَضْرِبُوْنَ وُجُوْہَہُمْ وَاَدْبَارَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ» (8-الانفال:50) موجود ہے یعنی ’ کافروں کی موت کے وقت فرشتے ان کے منہ پر اور کمر پر مارتے ہیں ‘ ۔ یہی بیان یہاں ہے کہ ’ فرشتے ان کی جان نکالنے کیلئے انہیں مار پیٹ کرتے ہیں اور کہتے ہیں اپنی جانیں نکالو ‘ ۔ کافروں کی موت کے وقت فرشتے انہیں عذابوں ، زنجیروں ، طوقوں کی ، گرم کھولتے ہوئے جہنم کے پانی اور اللہ کے غضب و غصے کی خبر سناتے ہیں جس سے ان کی روح ان کے بدن میں چھپتی پھرتی ہے اور نکلنا نہیں چاہتی ، اس پر فرشتے انہیں مار پیٹ کر جبراً گھسیٹتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب تمہاری بدترین اہانت ہوگی اور تم بری طرح رسوا کئے جاؤ گے جیسے کہ تم اللہ کی آیتوں کا انکار کرتے تھے اس کے فرمان کو نہیں مانتے تھے اور اس کے رسولوں کی تابعداری سے چڑتے تھے ۔ مومن و کافر کی موت کا منظر جو احادیث میں آیا ہے وہ سب آیت «یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَفِی الْاٰخِرَۃِ وَیُضِلٰ اللّٰہُ الظّٰلِمِیْنَ وَیَفْعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَاءُ» ۱؎ (14 ۔ ابراہیم:27) کی تفسیر میں ہے ، ابن مردویہ نے اس جگہ ایک بہت لمبی حدیث بیان کی ہے لیکن اس کی سند غریب ہے ۔ ۱؎ (الدر المنشور للسیوطی:56/3:ضعیف) «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ’ جس دن انہیں ان کی قبروں سے اٹھایا جائے گا اس دن ان سے کہا جائے گا کہ «وَعُرِضُوا عَلَیٰ رَبِّکَ صَفًّا لَّقَدْ جِئْتُمُونَا کَمَا خَلَقْنَاکُمْ أَوَّلَ مَرَّۃٍ» ۱؎ (18-الکہف:48) ’ تم تو اسے بہت دور اور محال مانتے تھے تو اب دیکھ لو جس طرح شروع شروع میں ہم نے تمہیں پیدا کیا تھا اوب دوبارہ بھی پیدا کر دیا -جو کچھ مال متاع ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا سب تم وہیں اپنے پیچھے چھوڑ آئے ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { انسان کہتا ہے میرا مال میرا مال حالانکہ تیرا مال وہی ہے جسے تو نے کھا پی لیا وہ تو فنا ہو گیا یا تو نے پہن اوڑھ لیا وہ پھٹا پرانا ہو کر ضائع ہو گیا یا تو نے نام مولٰی پر خیرات کیا وہ باقی رہا اس کے سوا جو کچھ ہے اسے تو ، تو اوروں کے لیے چھوڑ کر یہاں سے جانے والا ہے } } } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2958) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں انسان کو قیامت کے دن اللہ کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور رب العالمین اس سے دریافت فرمائے گا کہ ’ جو تو نے جمع کیا تھا وہ کہاں ہے ؟ ‘ یہ جواب دے گا کہ خوب بڑھا چڑھا کر اسے دنیا میں چھوڑ آیا ہوں ۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا ’ اے ابن آدم پیچھے چھوڑا ہوا تو یہاں نہیں ہے البتہ آگے بھیجا ہوا یہاں موجود ہے ‘ -اب جو یہ دیکھے گا تو کچھ بھی نہ پائے گا پھر آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھی ، پھر انہیں ان کا شرک یاد دلا کر دھمکایا جائے گا کہ «أَیْنَ شُرَکَاؤُکُمُ الَّذِینَ کُنتُمْ تَزْعُمُونَ» ۱؎ (6-الأنعام:22) ’ جنہیں تم اپنا شریک سمجھ رہے تھے اور جن پر ناز کر رہے تھے کہ ہمیں بچا لیں گے اور نفع دیں گے وہ آج تمہارے ساتھ کیوں نہیں ؟ وہ کہاں رہ گئے ؟ انہیں شفاعت کے لیے کیوں آگے نہیں بڑھاتے ؟ ‘ حق یہ ہے کہ قیامت کے دن سارے جھوٹ بہتان افترا کھل جائیں گے ۔ اللہ تعالیٰ سب کو سنا کر ان سے فرمائے گا ’ جنہیں تم نے میرے شریک ٹھہرا رکھا تھا وہ کہاں ہیں ؟ ‘ اور ان سے کہا جائے گا کہ ’ جن کی تم اللہ کے سوا عبادت کرتے تھے وہ کہاں ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ نہ وہ تمہاری مدد کرتے ہیں نہ خود اپنی مدد وہ آپ کرتے ہیں ۔ تم تو دنیا میں انہیں مستحق عبادت سمجھتے رہے ‘ ۔ «بَیْنَکُمْ» کی ایک قرأت «بَیْنُکُمْ» بھی ہے یعنی تمہاری یکجہتی ٹوٹ گئی اور پہلی قرأت پر یہ معنی ہیں کہ جو تعلقات تم میں تھے جو وسیلے تم نے بنا رکھے تھے سب کٹ گئے معبودان باطل سے جو غلط منصوبے تم نے باندھ رکھے تھے سب برباد ہو گئے ۔ جیسے فرمان باری ہے آیت «إِذْ تَبَرَّأَ الَّذِینَ اتٰبِعُوا مِنَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا وَرَأَوُا الْعَذَابَ وَتَقَطَّعَتْ بِہِمُ الْأَسْبَابُ وَقَالَ الَّذِینَ اتَّبَعُوا لَوْ أَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَتَبَرَّأَ مِنْہُمْ کَمَا تَبَرَّءُوا مِنَّا کَذٰلِکَ یُرِیہِمُ اللہُ أَعْمَالَہُمْ حَسَرَاتٍ عَلَیْہِمْ وَمَا ہُم بِخَارِجِینَ مِنَ النَّارِ» (2-البقرہ:166-167) یعنی ’ تابعداری کرنے والے ان سے بیزار ہوں گے جن کی تابعداری وہ کرتے رہے اور سارے رشتے ناتے اور تعلقات کٹ جائیں گے ‘ ۔ اس وقت تابعدار لوگ حسرت و افسوس سے کہیں گے کہ اگر ہم دنیا میں واپس جائیں تو تم سے بھی ایسے ہی بیزار ہو جائیں گے جیسے تم ہم سے بیزار ہوئے ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ انہیں ان کے کرتوت دکھائے گا ان پر حسرتیں ہوں گی اور یہ جہنم سے نہیں نکلیں گے ۔ اور آیت میں ہے «فَإِذَا نُفِخَ فِی الصٰورِ فَلاَ أَنسَـبَ بَیْنَہُمْ یَوْمَئِذٍ وَلاَ یَتَسَآءَلُونَ» (23-المؤمنون:101) ’ جب صور پھونکا جائے گا تو آپس کے نسب منقطع ہو جائیں گے اور کوئی کسی کا پرسان حال نہ ہو گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے کہ «إِنَّمَا اتَّخَذْتُم مِّن دُونِ اللہِ أَوْثَانًا مَّوَدَّۃَ بَیْنِکُمْ فِی الْحَیَاۃِ الدٰنْیَا ثُمَّ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُ بَعْضُکُم بِبَعْضٍ وَیَلْعَنُ بَعْضُکُم بَعْضًا وَمَأْوَاکُمُ النَّارُ وَمَا لَکُم مِّن نَّاصِرِینَ» ۱؎ (29-العنکبوت:25) ’ جن جن کو تم نے اپنا معبود ٹھہرا رکھا ہے اور ان سے دوستیاں رکھتے ہو وہ قیامت کے دن تمہارے اور تم ان کے منکر ہو جاؤ گے اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے تو تم سب کا ٹھکانا جہنم ہو گا اور کوئی بھی تمہارا مددگار کھڑا نہ ہو گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَقِیْلَ ادْعُوْا شُرَکَاءَکُمْ فَدَعَوْہُمْ فَلَمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَہُمْ وَرَاَوُا الْعَذَابَ لَوْ اَنَّہُمْ کَانُوْا یَہْتَدُوْنَ» ۱؎ (28-القصص:64) یعنی ’ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو آواز دو وہ پکاریں گے لیکن انہیں کوئی جواب نہ ملے گا ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَیَوْمَ نَحْشُرُہُمْ جَمِیْعًا ثُمَّ نَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَیْنَ شُرَکَاؤُکُمُ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ» ۱؎ (6۔الأنعام:22) یعنی ’ قیامت کے دن ہم ان سب کا حشر کریں گے پھر مشرکوں سے فرمائیں گے کہاں ہیں تمہارے شریک ؟‘ اس بارے کی اور آیتیں بھی بہت ہیں ۔