قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ ۚ فَاتَّقُوا اللَّهَ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
(اے رسول ! لوگوں سے) کہہ دو کہ ناپاک اور پاکیزہ چیزیں برابر نہیں ہوتیں، چاہے تمہیں ناپاک چیزوں کی کثرت اچھی لگتی ہو۔ (٦٨) لہذا اے عقل والو ! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
رزق حلال کم ہو تو برکت حرام زیادہ بھی ہو تو بےبرکت اور کثرت سوالات مقصد یہ ہے کہ حلال گو تھوڑا ہو وہ بہتر ہے حرام سے گو بہت سارا ہو جیسے وارد ہے کہ جو کم ہو اور کفایت کرے وہ بہتر ہے اس سے جو زیادہ ہو اور غافل کر دے ۔ ۱؎ (مسند ابو یعلی:1053:حسن) { ابن حاطب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے مال عطا فرمائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { کم مال جس کا شکریہ تو ادا کرے یہ بہتر ہے اس زیادہ سے جس کی تو طاقت نہ رکھے } } ۱؎ (سلسلۃ احادیث ضعیفہ البانی:4081 : ضعیف) ’ اے عقلمند لوگو اللہ سے ڈرو حرام سے بچو حلال پر اکتفا کرو قناعت کیا کرو تاکہ دین و دنیا میں کامیاب ہو جاؤ ‘ ۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو ادب سکھاتا ہے کہ ’ بے فائدہ سوالات مت کیا کرو ، کرید میں نہ پڑو ، ایسے نہ ہو کہ پھر ان کا جواب اور ان امور کا اظہار تم پر شاق گزرے ‘ ۔ صحیح حدیث میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { مجھے کوئی کسی کی برائی کی بات نہ پہنچائے ، میں چاہتا ہوں کہ تمہاری طرف اس حالت میں آؤں کہ میرے دل میں کسی کی طرف سے کوئی برائی نہ ہو } } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4860 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) صحیح بخاری شریف میں سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ { ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ سنایا ، ایسا بے مثل کہ ہم نے کبھی ایسا خطبہ نہ سنا تھا اسی میں فرمایا کہ { اگر تم وہ جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم بہت کم ہنستے اور بہت زیادہ روتے } ، یہ سن کر اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم منہ ڈھانپ کر رونے لگے اسی اثناء میں ایک شخص آپ سے پوچھ بیٹھا کہ میرا باپ کون ہے ؟ { آپ نے فرمایا فلاں } ، اس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4621) بخاری مسلم کی اور حدیث میں ہے کہ { ایک مرتبہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بہ کثرت سوالات شروع کر دیئے چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر آ گئے اور فرمایا { آؤ اب جس کسی کو جو کچھ پوچھنا ہو پوچھ لو جو پوچھو گے جواب پاؤ گے } ۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کانپ اٹھے کہ ایسا نہ ہو اس کے پیچھے کوئی اہم امر ظاہر ہو جتنے بھی تھے سب اپنے اپنے چہرے کپڑوں سے ڈھانپ کر رونے لگے ، ایک شخص تھے جن سے مذاق کیا جاتا تھا اور جنہیں لوگ ان کے باپ کے سوا دوسرے کی طرف نسبت کرکے بلاتے تھے اس نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرا باپ کون ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { خزافہ } ، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم اللہ کے رب ہونے پر اسلام کے دین ہونے پر اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سوال ہونے پر راضی ہوگئے ، ہم تمام فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { آج کی طرح میں نے بھلائی برائی کبھی نہیں دیکھی جنت دوزخ میرے سامنے اس دیوار کے پیچھے بطور نقشے کے پیش کردی گئی تھی } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:6362) اور روایت میں ہے یہ سوال کرنے والے عبداللہ بن حذافہ رضی اللہ عنہ تھے ۔ ان سے ان کی والدہ نے کہا تجھ سے بڑھ کر ماں باپ کا نافرمان میں نے نہیں دیکھا ۔ تجھے کیا خبر تھی جاہلیت میں کس چیز کا پرہیز تھا ۔ فرض کرو اگر میں بھی کسی معصیت میں اس وقت آلودہ ہوگئی ہوتی تو آج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی میری رسوائی ہوتی اور سب کے سامنے بےآبروئی ہوتی ۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” سنو ماں اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مجھے معلوم ہوتا کہ فلاں حبشی غلام کا میں بیٹا ہوں تو واللہ میں اسی سے مل جاتا “ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7294) ابن جریر میں ہے کہ { ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت غصے کی حالت میں آئے منبر پر بیٹھ گئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک اس وقت سرخ ہو رہا تھا ایک شخص نے کھڑے ہو کر پوچھا میں کہاں جاؤں گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا { جہنم میں } ۔ دوسرے نے پوچھا میرا باپ کون ہے ؟ آپ نے فرمایا { حذافہ } ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر فرمایا ہم اللہ کے رب ہونے پر ، اسلام کے دین ہونے پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی ہونے پر ، قرآن کے امام ہونے پر راضی ہیں یا رسول اللہ جاہلیت اور شرک میں ہم ابھی ابھی آپ کی طرف آئے ہیں ، اللہ ہی جانتا ہے کہ میرے آباؤ اجداد کون ہیں ؟ اس سے آپ کا غصہ کم ہوا اور یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12806:ضعیف) ایک مرسل حدیث میں ہے کہ { اس دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا : { جو چاہو پوچھو ، جو پوچھو گے ، بتاؤں گا } ، یہ شخص جس نے اپنے باپ کا نام پوچھا تھا یہ قریش کے قبیلے بنو سہم میں سے تھا ۔ اس روایت میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدم چوم کر یہ عرض کیا تھا اور یہ بھی فرمایا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے درگزر فرمائیے اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے درگزر فرمائے ، اسی دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ مقرر فرمایا تھا کہ { اولاد اسے ملے گی جس کی بیوی یا لونڈی ہو اور زانی کو پتھر ملیں گے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12805) بخاری شریف میں ہے کہ { بعض لوگ از روئے مذاق حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے باپ کا نام اور اپنی گمشدہ اونٹینیوں کی جگہ وغیرہ دریافت کرتے تھے جس پر یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4622) مسند احمد میں ہے کہ { جب آیت «وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجٰ الْبَیْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا» ۱؎ (3-آل عمران:97) نازل ہوئی یعنی ’ صاحب مقدور لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے ‘ ، تو لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ کیا ہر سال حج فرض ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو رہے انہوں نے پھر دوبارہ یہی سوال کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سکوت فرمایا انہوں نے تیسری دفعہ پھر یہی پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ہر سال نہیں اور اگر میں ہاں کہ دیتا تو ہر سال واجب ہو جاتا اور تم ادا نہ کر سکتے } } ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری ۔ یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:814 ، قال الشیخ الألبانی:ضعیف) امام ترمذی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں یہ روایت اس سند سے غریب ہے اور میں نے امام بخاری رحمۃ اللہ سے سنا ہے کہ اس کے راوی ابو الخجزی نے سیدنا علی ابن طالب رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہیں کی ۔ ابن جریر کی اس روایت میں یہ بھی ہے کہ { میری ہاں کے بعد اگر تم اسے چھوڑ دیتے تو یقیناً کافر ہو جاتے } ، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ پوچھنے والے محصن اسدی رضی اللہ عنہ تھے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12808:ضعیف) دوسری روایت میں ان کا نام عکاشہ بن محصن مروی ہے ، یہی زیادہ ٹھیک ہے ، اور روایت میں ہے کہ سائل ایک اعرابی تھے اس میں یہ بھی ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { تم سے اگلے لوگ ائمہ حرج کے ایسے ہی سوالوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے واللہ تمہاری حالت تو یہ ہے کہ اگر میں ساری زمین تمہارے لیے حلال کردوں اور صرف ایک موزے کے برابر کی جگہ حرام کردوں تو تم اسی حرمت والی زمین پر گرو گے } } ، اس کی سند بھی ضعیف ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12811:ضعیف) ظاہر آیت کے الفاظ کا مطلب تو صاف ہے یعنی ان باتوں کا پوچھنا منع ہے جن کا ظاہر ہونا برا ہو ، پس اولیٰ یہ ہے کہ ایسے سوالات ترک کر دیئے جائیں اور ان سے اعراض کرلیا جائے ۔ مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ { حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرما دیا { دیکھو مجھے کسی کی کوئی برائی نہ پہنچائے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس صاف سینہ لے کر آؤں } } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3896،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) پھر فرماتا ہے کہ ’ جن چیزوں کے سوال سے تمہیں روکا جا رہا ہے اگر تم نے ان کی بابت پوچھ گچھ کی اور تم دیکھ رہے ہو کہ وحی نازل ہو رہی ہے تو تمہارے سوالات کا جواب آ جائے گا اور جس چیز کا ظاہر ہونا تمہیں برا معلوم ہوتا تھا وہ ظاہر ہو جائے گی ، اس سے پہلے کے ایسے سوالات سے تو اللہ تعالیٰ نے درگزر فرما لیا ۔ اللہ ہے ہی بخشش والا اور حلم و بردباری والا ‘ ۔ مطلب یہ ہے کہ سوالات ترک کر دو ایسا نہ ہو کہ تمہارے سوال کی وجہ سے کوئی آسانی سختی میں بدل جائے ۔ حدیث شریف میں ہے { مسلمانوں میں سب سے بڑا گنہگار وہ ہے جس نے کسی چیز کی نسبت دریافت کیا جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال کی وجہ سے وہ حرام ہو گئی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7289) یہ بات اور ہے کہ قرآن شریف میں کوئی حکم آئے اس میں اجمال ہو اس کی تفصیل دریافت کی جائے ، اللہ تعالیٰ نے جس چیز کا ذکر اپنی پاک کتاب میں نہیں کیا اس سے خود اس نے درگزر فرما لیا ہے ، پس تمہیں بھی اس سے خاموشی اختیار کرنی چاہیئے جیسے کہ خود اللہ تعالیٰ نے کی ہے ۔ صحیح حدیث میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں { جب تک میں تمہیں چھوڑے رکھوں تم بھی مجھے چھوڑ رکھو ، یاد رکھو کہ تم سے اگلے لوگوں کی حالت کی وجہ صرف کثرت سوال اور انبیاء پر اختلاف ہی ہوئی ہے } } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:7288) اور حدیث میں ہے { اللہ تعالیٰ نے فرائض مقرر کر دیئے ہیں انہیں ضائع نہ کرو حدیں باندھ دی ہیں انہیں نہ توڑو ، جو چیزیں حرام کر دی ہیں ان کی حرمت کو سنبھالو جن چیزوں سے خاموشی کی ہے صرف تم پر رحم کھا کر نہ کہ بھول کر تم بھی اس کو پوچھ گچھ نہ کرو } ۔ ۱؎ (دارقطنی:183/4:ضعیف) پھر فرماتا ہے ’ ایسے ہی مسائل تم سے اگلے لوگوں نے بھی دریافت کئے انہیں بتائے گئے پھر وہ ان پر ایمان نہ لائے بلکہ ان کے باعث کافر بن گئے ان پر وہ باتیں بیان کی گئیں ان سے انہوں نے فائدہ نہ اٹھایا کیونکہ ان کے سوال ہی سرکشی پر تھے نہ کہ سمجھنے اور ماننے کیلئے ‘ ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کیا پھر فرمایا کہ { اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کر دیا ہے } ، بنو اسد قبیلے کا ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا یا رسول اللہ کیا ہر سال ؟ آپ سخت غضبناک ہوئے اور فرمایا : { قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں ہاں کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہو جاتا اور اگر ایسا ہوتا تو اس پر عمل تمہاری طاقت سے باہر تھا اور جب عمل نہ کرتے تو کافر ہو جاتے پس جب تک میں نہ کہوں تم بھی نہ پوچھو میں خود جب تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو اسے بجا لاؤ اور جب میں تمہیں کسی چیز سے روکوں تو رک جاؤ } ۔ پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کو ممانعت کردی کہ کہیں وہ بھی نصرانیوں کی طرح آسمانی دستر خوان طلب نہ کریں جس کے طلب کرنے کے بعد اور آنے کے بعد پھر وہ کافر ہوگئے پس منع کردیا اور صاف فرما دیا کہ ایسی باتیں نہ پوچھو کہ اگر قرآن میں ان کی بابت سخت احکام نازل ہوں تو تمہیں برے لگیں بلکہ تم منتظر رہو قرآن اتر رہا ہے جو پوچھنا چاہتے ہو سب کا بیان اس میں پاؤ گے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:12812:ضعیف) بہ روایت مجاہد رحمۃ اللہ ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس آیت کی تفسیر میں یہ بھی مروی ہے کہ مراد اس سے وہ جانور ہیں جن کا ذکر اس آیت کے بعد ہی ہے ۔ عکرمہ رحمۃ اللہ فرماتے ہیں مراد معجزات کی طلبی ہے جیسے کہ قریشیوں نے کہا تھا کہ عرب میں نہریں جاری ہو جائیں اور صفا پہاڑ سونے کا ہو جائے وغیرہ اور جیسے یہود نے کہا تھا کہ خود ان پر آسمان سے کتاب اترے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آیت «وَمَا مَنَعَنَآ اَنْ نٰرْسِلَ بالْاٰیٰتِ اِلَّآ اَنْ کَذَّبَ بِہَا الْاَوَّلُوْنَ» ۱؎ (17-الإسراء:59) یعنی ’ معجزوں کے ظاہر کرنے سے مانع تو کچھ بھی نہیں مگر یہ کہ اگلے لوگوں نے بھی اسے جھٹلایا ہم نے ثمود کو اونٹنی کا نشان دیا تھا جس پر انہوں نے ظلم کیا ہم تو نشانات صرف دھمکانے کیلئے بھیجتے ہیں ‘ ۔ اور آیت میں ہے «وَاَقْسَمُوْا باللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لَیِٕنْ جَاءَتْہُمْ اٰیَۃٌ لَّیُؤْمِنُنَّ بِہَا قُلْ اِنَّمَا الْاٰیٰتُ عِنْدَ اللّٰہِ وَمَا یُشْعِرُکُمْ اَنَّہَآ اِذَا جَاءَتْ لَا یُؤْمِنُوْنَ وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَہُمْ وَأَبْصَارَہُمْ کَمَا لَمْ یُؤْمِنُوا بِہِ أَوَّلَ مَرَّۃٍ وَنَذَرُہُمْ فِی طُغْیَانِہِمْ یَعْمَہُونَ وَلَوْ أَنَّنَا نَزَّلْنَا إِلَیْہِمُ الْمَلَائِکَۃَ وَکَلَّمَہُمُ الْمَوْتَیٰ وَحَشَرْنَا عَلَیْہِمْ کُلَّ شَیْءٍ قُبُلًا مَّا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا إِلَّا أَن یَشَاءَ اللہُ وَلٰکِنَّ أَکْثَرَہُمْ یَجْہَلُونَ» ۱؎ ۱؎ (6-الأنعام:111-109) ’ بڑی زور دار قسمیں کھاتے ہیں کہ اگر کوئی معجزہ آ گیا تو ضرور ایمان لائیں گے تو جواب دے کہ یہ تو اللہ کے قبضے کی چیز ہے ہو سکتا ہے کہ معجزہ دیکھ کر بھی ایمان نہ لائیں ہم ان کے دلوں کو اور آنکھوں کو الٹ دیں گے جیسے کہ پہلی دفعہ قرآن پر ایمان نہیں لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں ہی پڑے رہنے دیں گے بھٹکتے پھریں اگر ہم ان پر آسمان سے فرشتے بھی اتارتے اور مردے بھی ان سے باتیں کرنے لگتے اور تمام چیزیں یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے تب بھی تو اللہ کی چاہت کے بغیر انہیں ایمان نصیب نہ ہوتا ۔ ان میں سے اکثر ہیں ہی بے علم ‘ ۔