يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے (٦٢) یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
پانسہ بازی ، جوا اور شراب ان آیتوں میں اللہ تعالیٰ بعض چیزوں سے روکتا ہے ۔ شراب کی ممانعت فرمائی ، پھر جوئے کی روک کی ۔ امیر المونین علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ” شطرنج بھی جوئے میں داخل ہے “ ۔ (ابن ابی حاتم) عطاء ، مجاہد اور طاؤس رحمہ اللہ علیہم سے یا ان میں سے دو سے مروی ہے کہ ” جوئے کی ہر چیز میسر میں داخل ہے گو بچوں کے کھیل کے طور پر ہو “ ۔ جاہلیت کے زمانے میں جوئے کا بھی عام رواج تھا جسے اسلام نے غارت کیا ۔ ان کا ایک جوا یہ بھی تھا کہ گوشت کو بکری کے بدلے بیچتے تھے ، پانسے پھینک کر مال یا پھل لینا بھی جوا ہے ۔ قاسم بن محمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” جو چیز ذکر اللہ اور نماز سے غافل کر دے وہ جوا ہے “ ۔ ابن ابی حاتم کی ایک مرفوع غریب حدیث میں ہے کہ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : { ان پانسوں سے بچو جن سے لوگ کھیلا کرتے تھے ، یہ بھی جوا ہے } } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:1196/4:ضعیف) صحیح مسلم شریف میں ہے { پانسوں سے کھیلنے والا گویا اپنے ہاتھوں کو سور کے خون اور گوشت میں آلودہ کرنے والا ہے } ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2260) سنن میں ہے کہ { وہ اللہ اور رسول کا نافرمان ہے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4938،قال الشیخ الألبانی:حسن) سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کا قول بھی اسی طرح مروی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ، مسند میں ہے { پانسوں سے کھیل کر نماز پڑھنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی شخص قے اور گندگی سے اور سور کے خون سے وضو کر کے نماز ادا کرے } ۔ ۱؎ (مسند احمد:370/5:ضعیف) سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ” میرے نزدیک شطرنج اس سے بھی بری ہے “ ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے شطرنج کا جوئے میں سے ہونا پہلے بیان ہو چکا ہے ۔ امام مالک رحمہ اللہ ، امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ، امام احمد رحمہ اللہ تو کھلم کھلا اسے حرام بتاتے ہیں اور امام شافعی رحمہ اللہ بھی اسے مکروہ بتاتے ہیں ۔ «أَنصَابُ» ان پتھروں کو کہتے ہیں جن پر مشرکین اپنے جانور چڑھایا کرتے تھے اور انہیں وہیں ذبح کرتے تھے ۔ «اَزْلاَمُ» ان تیروں کو کہتے ہیں جن میں وہ فال لیا کرتے تھے ۔ ان سب چیزوں کی نسبت فرمایا کہ ’ یہ اللہ کی ناراضگی کے اور شیطانی کام ہیں ۔ یہ گناہ کے اور برائی کے کام ہیں تم ان شیطانی کاموں سے بچو انہیں چھوڑ دو تاکہ تم نجات پاؤ ‘ ۔ اس فقرے میں مسلمانوں کو ان کاموں سے روکنے کی ترغیب ہے ۔ پھر رغبت آمیز دھمکی کے ساتھ مسلمانوں کو ان چیزوں سے روکا گیا ہے ۔