لَّن يَسْتَنكِفَ الْمَسِيحُ أَن يَكُونَ عَبْدًا لِّلَّهِ وَلَا الْمَلَائِكَةُ الْمُقَرَّبُونَ ۚ وَمَن يَسْتَنكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا
مسیح کو ہرگز اس بات میں عار نہیں کہ وہ خدا کا بندہ سمجھا جائے اور نہ خدا کے مقرب فرشتوں کو اس سے ننگ و عار ہے۔ جو کوئی خدا کی بندگی میں ننگ و عار سمجھے اور گھمنڈ کرے تو ( وہ گھمنڈ کرکے جائے گا کہاں؟) وہ وقت دور نہیں کہ خدا سب کو ( قیامت کے دن) اپنے حضور جمع کرے گا
اس کی گرفت سے فرار ناممکن ہے! مطلب یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام اور اعلیٰ ترین فرشتے بھی اللہ کی بندگی سے انکار اور فرار نہیں کر سکتے ، نہ یہ ان کی شان کے لائق ہے بلکہ جو جتنا مرتبے میں قریب ہوتا ہے ، وہ اسی قدر اللہ کی عبادت میں زیادہ پابند ہوتا ہے ۔ بعض لوگوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ فرشتے انسانوں سے افضل ہیں ۔ لیکن دراصل اس کا کوئی ثبوت اس آیت میں نہیں ، اس لیے یہاں ملائکہ کا عطف مسیح علیہ السلام پر ہے اور استنکاف کا معنی رکنے کے ہیں اور فرشتوں میں یہ قدرت بہ نسبت مسیح علیہ السلام کے زیادہ ہے ۔ اس لیے یہ فرمایا گیا ہے اور رک جانے پر زیادہ قادر ہونے سے افضیلت ثابت نہیں ہوتی اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جس طرح مسیح علیہ السلام کو لوگ پوجتے تھے ، اسی طرح فرشتوں کی بھی عبادت کرتے تھے ۔ تو اس آیت میں مسیح علیہ السلام کو اللہ کی عبادت سے رکنے والا بتا کر فرشتوں کی بھی یہی حالت بیان کر دی ، جس سے ثابت ہو گیا کہ جنہیں تم پوجتے ہو وہ خود اللہ کو پوجتے ہیں ، پھر ان کی پوجا کیسی ؟ جیسے اور آیت میں ہے «وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمٰنُ وَلَدًا ۗ سُبْحَانَہُ ۚ بَلْ عِبَادٌ مٰکْرَمُونَ لَا یَسْبِقُونَہُ بِالْقَوْلِ وَہُم بِأَمْرِہِ یَعْمَلُونَ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ أَیْدِیہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وَلَا یَشْفَعُونَ إِلَّا لِمَنِ ارْتَضَیٰ وَہُم مِّنْ خَشْیَتِہِ مُشْفِقُونَ وَمَن یَقُلْ مِنْہُمْ إِنِّی إِلٰہٌ مِّن دُونِہِ فَذٰلِکَ نَجْزِیہِ جَہَنَّمَ ۚ کَذٰلِکَ نَجْزِی الظَّالِمِینَ» (21-الأنبیاء:26-29) ۔ اسی لیے یہاں بھی فرمایا کہ جو اس کی عبادت سے رکے ، منہ موڑے اور بغاوت کرے ، وہ ایک وقت اسی کے پاس لوٹنے والا ہے اور اپنے بارے میں اس کا فیصلہ سننے والا ہے اور جو ایمان لائیں ، نیک اعمال کریں ، انہیں ان کا پورا ثواب بھی دیا جائے گا ، پھر رحمت ایزدی اپنی طرف سے بھی انعام عطا فرمائے گی ۔ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے کہ اجر تو یہ ہے کہ جنت میں پہنچا دیا اور زیادہ فضل یہ ہے کہ جو لوگ قابل دوزخ ہوں ، انہیں بھی ان کی شفاعت نصیب ہو گی ، جن سے انہوں نے بھلائی اور اچھائی کی تھی ۱؎ (طبرانی کبیر:10462:ضعیف) لیکن اس کی سند ثابت شدہ نہیں ، ہاں اگر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول پر ہی اسے روایت کیا جائے تو ٹھیک ہے ۔ پھر فرمایا جو لوگ اللہ کی عبادت و اطاعت سے رک جائیں اور اس سے تکبر کریں ، انہیں پروردگار درد ناک عذاب کرے گا اور یہ اللہ کے سوا کسی کو دلی و مددگار نہ پائیں گے ۔ جیسے اور آیت میں ہے آیت «اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَہَنَّمَ دٰخِرِیْنَ» ۱؎ (40-غافر:60) ’ جو لوگ میری عبادت سے تکبر کریں ، وہ ذلیل و حقیر ہو کر جہنم میں جائیں گے ’ یعنی ان کے انکار اور ان کے تکبر کا یہ بدلہ انہیں ملے گا کہ ذلیل و حقیر خوار و بے بس ہو کر جہنم میں داخل کئے جائیں گے ۔