لَّا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَ ۚ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
خدا کو پسند نہیں کہ تم (کسی کی) برائی پکارتے پھرو۔ ہاں یہ کہ کسی پر ظلم ہوا ہو (اور وہ ظالم کے ظلم کا اعلان کرے) اور (یاد رکھو) خدا سننے والا جاننے والا ہے (اس سے کسی کی کوئی بات پوشیدہ نہیں
مظلوم کو فریاد کا حق ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کو دوسرے کو بد دعا دینا جائز نہیں ، ہاں جس پر ظلم کیا گیا ہو اسے اپنے ظالم کو بد دعا دینا جائز ہے اور وہ بھی اگر صبر و ضبط کر لے تو افضل یہی ہے ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:344/9) ابوداؤد میں ہے { سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی کوئی چیز چور چرا لے گئے تو آپ ان پر بد دعا کرنے لگیں ۔ حضور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ! کیوں اس کا بوجھ ہلکا کر رہی ہو ؟ } ۱؎ (سنن ابوداود:4909،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس پر بد دعا نہ کرنی چاہیئے بلکہ یہ دعا کرنی چاہیئے «اللھم اعنی علیہ واستخرج حقی منہ» ’ یا اللہ اس چور پر تو میری مدد کر اور اس سے میرا حق دلوا دے ۔ ‘ آپ سے ایک اور روایت میں مروی ہے کہ { اگرچہ مظلوم کے ظالم کو کوسنے کی رخصت ہے مگر یہ خیال رہے کہ حد سے نہ بڑھ جائے ۔ } عبدالکریم بن مالک جزری رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں “گالی دینے والے کو یعنی برا کہنے والے کو برا تو کہہ سکتے ہیں لیکن بہتان باندھنے والے پر بہتان نہیں باندھ سکتے ۔ “ ایک اور آیت میں ہے «وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِہٖ فَاُولٰۗیِٕکَ مَا عَلَیْہِمْ مِّنْ سَبِیْلٍ» ۱؎ (42-الشوری:41) ’ جو مظلوم اپنے ظالم سے اس کے ظلم کا انتقام لے ، اس پر کوئی مؤاخذہ نہیں ۔ ‘ ابوداؤد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں “دو گالیاں دینے والوں کا وبال اس پر ہے ، جس نے گالیاں دینا شروع کیا ۔ ہاں اگر مظلوم حد سے بڑھ جائے تو اور بات ہے ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:2578) حضرت مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو شخص کسی کے ہاں مہمان بن کر جائے اور میزبان اس کا حق مہمانی ادا نہ کرے تو اسے جائز ہے کہ لوگوں کے سامنے اپنے میزبان کی شکایت کرے ، جب تک کہ وہ حق ضیافت ادا نہ کرے ۔ ابوداؤد ، ابن ماجہ وغیرہ میں ہے { صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ آپ ہمیں ادھر ادھر بھیجتے ہیں ۔ بعض مرتبہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہاں کے لوگ ہماری مہمانداری نہیں کرتے“ آپ نے فرمایا اگر وہ میزبانی کریں تو درست ، ورنہ تم ان سے لوازمات میزبانی خود لے لیا کرو ۔ } ۱؎ (صحیح بخاری:2461) مسند احمد کی روایت میں { فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو مسلمان کسی اہل قبلہ کے ہاں مہمان بن کر جائے اور ساری رات گذر جائے لیکن وہ لوگ اس کی مہمانداری نہ کریں تو ہر مسلمان پر اس مہمان کی نصرت ضروری ہے تاکہ میزبان کے مال سے اس کی کھیتی سے بقدر مہمانی دلائیں ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:3751،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مسند کی اور حدیث میں ہے { ضیافت کی رات ہر مسلمان پر واجب ہے ، اگر کوئی مسافر صبح تک محروم رہ جائے تو یہ اس میزبان کے ذمہ قرض ہے ، خواہ ادا کرے خواہ باقی رکھے} ۱؎ (سنن ابوداود:3750،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ان احادیث کی وجہ سے امام احمد رحمہ اللہ وغیرہ کا مذہب ہے کہ ضیافت واجب ہے ، ابوداؤد شریف وغیرہ میں ہے { ایک شخص سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کرتا ہے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے میرا پڑوسی بہت ایذاء پہنچاتا ہے ، آپ نے فرمایا ایک کام کرو ، اپنا کل مال اسباب گھر سے نکال کر باہر رکھ دو } ۔ اس نے ایسا ہی کیا راستے پر اسباب ڈال کر وہیں بیٹھ گیا ، اب جو گذرتا وہ پوچھتا کیا بات ہے ؟ یہ کہتا میرا پڑوسی مجھے ستاتا ہے میں تنگ آ گیا ہوں ، راہ گزر اسے برا بھلا کہتا ، کوئی کہتا رب کی مار اس پڑوسی پر ۔ کوئی کہتا اللہ غارت کرے اس پڑوسی کو ، جب پڑوسی کو اپنی اس طرح کی رسوائی کا حال معلوم ہوا تو اس کے پاس آیا ، منتیں کر کے کہا “اپنے گھر چلو اللہ کی قسم اب مرتے دم تک تم کو کسی طرح نہ ستاؤں گا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:124) پھر ارشاد ہے کہ اے لوگو تم کسی نیکی کو ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو تم پر کسی نے ظلم کیا ہو اور تم اس سے درگزر کرو تو اللہ کے پاس تمہارے لیے بڑا ثواب ، پورا اجر اور اعلیٰ درجے ہیں ۔ خود وہ بھی معاف کرنے والا ہے اور بندوں کی بھی یہ عادت اسے پسند ہے ، وہ انتقام کی قدرت کے باوجود معاف فرماتا رہتا ہے ۔ ایک روایت میں ہے کہ { عرش کو اٹھانے والے فرشتے اللہ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں ۔ } بعض تو کہتے ہیں دعا« سُبحانَکَ علی حلمِکَ بَعدَ عِلمِکَ» { یا اللہ تیری ذات پاک ہے کہ تو باوجود جاننے کے پھر بھی برد باری اور چشم پوشی کرتا ہے ۔ } بعض کہتے ہیں « سُبحانَکَ علی عفوِکَ بعدَ قٌدرتِکَ» { اے قدرت کے باوجود درگذر کرنے والے اللہ تمام پاکیاں تیری ذات کے لیے مختص ہیں ۔ } صحیح حدیث شریف میں ہے { صدقے اور خیرات سے کسی کا مال گھٹتا نہیں ، عفو و درگذر کرنے اور معاف کر دینے سے اللہ تعالیٰ اور عزت بڑھاتا ہے اور جو شخص اللہ کے حکم سے تواضع ، فروتنی اور عاجزی اختیار کرے اللہ اس کا مرتبہ اور توقیر مزید بڑھا دیتا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2588)