لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَا أَمَانِيِّ أَهْلِ الْكِتَابِ ۗ مَن يَعْمَلْ سُوءًا يُجْزَ بِهِ وَلَا يَجِدْ لَهُ مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
(مسلمانو ! نجات و سعادت) نہ تو تمہاری آرزوؤں پر (موقوف) ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر۔ (وہ تو ایمان و عمل پر موقوف ہے) جو کوئی برائی کرے گا (خواہ کوئی ہو) ضروری ہے کہ اس کا بدلہ پائے، اور پھر اللہ کے سوا نہ تو اسے کوئی دوست ملے نہ مددگار
. حضرت قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم سے ذکر کیا گیا کہ اہل کتاب اور مسلمان میں چرچہ ہونے لگا اہل کتاب تو یہ کہ کر اپنی فضیلت جتا رہے تھے کہ ہمارے نبی تمہارے نبی سے پہلے کے ہیں اور ہماری کتاب بھی تمہاری کتاب سے پہلے کی ہے اور مسلمان کہہ رہے تھے کہ ہمارے نبی خاتم الانبیاء ہیں اور ہماری کتاب تمام اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اس پر یہ آیتیں اتریں اور مسلمانوں کی سابقہ دین والوں پر فضیلت بیان ہوئی . مجاہد سے مروی ہے کہ عرب نے کہا نہ تو ہم مرنے کے بعد جئیں گے نہ ہمیں عذاب ہو گا ۔ اور آیت میں ہے«وَقَالُوا لَن یَدْخُلَ الْجَنَّۃَ إِلَّا مَن کَانَ ہُودًا أَوْ نَصَارَیٰ» ۱؎ (2-البقرۃ:111) ’ یہودیوں نے کہا صرف ہم ہی جنتی ہیں . ‘ یہی قول نصرانیوں کا بھی تھا اور کہتے تھے «وَقَالُوا لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلَّا أَیَّامًا مَّعْدُودَۃً» ۱؎ (2-البقرۃ:80) ’ آگ ہمیں صرف چند دن ستائے گی . ‘ آیت کا مضمون یہ ہے کہ صرف اظہار کرنے اور دعویٰ کرنے سے صداقت و حقانیت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ایماندار وہ ہے جس کا دل صاف ہو اور عمل شاہد ہوں اور اللہ تعالیٰ کی دلیل اس کے ہاتھوں میں ہو ، تمہاری خواہشیں اور زبانی دعوے کوئی وقعت نہیں رکھتے نہ اہل کتاب کی تمنائیں اور بلند باتیں ، نجات کا مدار ہیں بلکہ وقار و نجات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی فرماں برداری اور رسولوں کی تابعداری میں ہے ۔ برائی کرنے والے کسی نسبت کی وجہ سے اس برائی کے خمیازے سے چھوٹ جائیں ناممکن ہے بلکہ«فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَرَہُ ۔ وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَرَہُ » ۱؎ (99-الزلزلۃ:8) ’ رتی رتی بھلائی اور برائی قیامت کے دن اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھ لیں گے . ‘ یہ آیت صحابہ رضی اللہ عنہم پر بہت گراں گذری تھی اور { سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اب نجات کیسے ہو گی ؟ جبکہ ایک ایک عمل کا بدلہ ضروری ہے تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ تجھے بخشے ابوبکر یہ سزا وہی ہے جو کبھی تیری بیماری کی صورت میں ہوتی ہے کبھی تکلیف کی صورت میں کبھی صدمے اور غم و رنج کی صورت میں اور کبھی بلا و مصیبت کی شکل میں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:11/1:صحیح بالشواھد) اور روایت میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر برائی کرنے والا دنیا میں بدلہ پالے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:6/1:صحیح بالشواھد) ابن مردویہ میں ہے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے اپنے غلام سے فرمایا دیکھو جس جگہ سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہا کو سولی دی گئی ہے وہاں تم نہ چلنا ، غلام بھول گیا ، اب سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نظر سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہ پر پڑی تو فرمانے لگے واللہ جہاں تک میری معلومات ہیں میری گواہی ہے کہ تو روزے دار اور نمازی اور رشتے ناتے جوڑے والا تھا مجھے اللہ سے اُمید ہے کہ جو لغزشیں تجھ سے ہو گئیں ان کا بدلہ دنیا میں ہی مکمل ہو اب تجھے اللہ کوئی عذاب نہیں دے گا پھر مجاہد رحمہ اللہ کی طرف دیکھ کر فرمانے لگے میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سنا ہے وہ فرماتے تھے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا جو شخص برائی کرتا ہے اس کا بدلہ دنیا میں ہی پالیتا ہے ۔ } ۱؎ (مسند ابویعلیٰ:18:صحیح بالشواھد) دوسری روایت میں ہے کہ سیدنا ابن عمر علیہ السلام نے سیدنا ابن زبیر رضی اللہ عنہا کو سولی پر دیکھ کر فرمایا اے ابوحبیب اللہ تجھ پر رحم کرے میں نے تیرے والد کی زبان سے یہ حدیث سنی ہے ۔ ۱؎ (مسند بزار:2204:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ آیت اتری ، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پڑھ کر سنایا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ غم ناک ہو گئے انہیں یہ معلوم ہونے لگا کہ گویا ہر ہر عمل کا بدلہ ہی ملنا جب ٹھہرا تو نجات مشکل ہو جائے گی ۔ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سنو صدیق تم اور تمہارے ساتھی یعنی مومن تو دنیا میں ہی بدلہ دے دئیے جاؤ گے اور ان مصیبتوں کے باعث تمہارے گناہ معاف ہو جائیں گے قیامت کے دن پاک صاف اٹھو گے ہاں اور لوگ کی برائیاں جمع ہوتی جاتی ہیں اور قیامت کے دن انہیں سزا دی جائے گی ۔ } یہ حدیث ترمذی نے بھی روایت کی ہے ۱؎ (سنن ترمذی:3039،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) اور کہا ہے کہ اس کاراوی موسیٰ بن عبیدہ ضعیف ہے اور دوسرا راوی مولی بن سباع مجہول ہے اور بھی بہت سے طریق سے اس روایت کا ماحصل مروی ہے ۔ ایک اور حدیث میں ہے ، { سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیت سب سے زیادہ ہم پر بھاری پڑتی ہے تو آپ نے فرمایا مومن کا یہ بدلہ وہی ہے جو مختلف قسم کی پریشانیوں اور تکلیفوں کی صورت میں اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے ۔} ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10537:ضعیف) اور حدیث میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہاں تک کہ مومن اپنی نقدی جیب میں رکھ لے پھر ضرورت کے وقت تلاش کرے تھوڑی دیر نہ ملے پھر جیب میں ہاتھ ڈالنے سے نکل آئے تو اتنی دیر میں جو اسے صدمہ ہوا اس سے بھی اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور یہ بھی اس کی برائیوں کا بدلہ ہو جاتا ہے یونہی مصائب دنیا اسے کندن بنا دیتے ہیں کہ قیامت کا کوئی بوجھ اس پر نہیں رہتا جس طرح سونا بھٹی میں تپا کر نکال لیا جائے اس طرح دنیا میں پاک صاف ہو کر اللہ کے پاس جاتا ہے ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10536:ضعیف) ابن مردویہ میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا مومن کو ہرچیز میں اجر دیا جاتا ہے یہاں تک کہ موت کی سختی کا بھی ۔ } ۱؎ (تفسیر ابن ابی حاتم:3062/2:ضعیف) مسند احمد میں ہے { جب بندے کے گناہ زیادہ ہو جاتے ہیں اور انہیں دور کرنے والے بکثرت نیک اعمال نہیں ہوتے تو اللہ اس پر کوئی غم ڈال دیتا ہے جس سے اس کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں ۔ } ۱؎ (مسند احمد:157/6:ضعیف) سعید بن منصور لائے ہیں کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم پر اس آیت کا مضمون گراں گذرا تو { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا ٹھیک ٹھاک رہو اور ملے جلے رہو مسلمان کی ہر تکلیف اس کے گناہ کا کفارہ ہے یہاں تک کہ کانٹے کا لگنا بھی اس سے کم تکلیف بھی ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:2574) روایت میں ہے کہ جب صحابہ رضی اللہ عنہم رو رہے تھے اور رنج میں تھے اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے یہ فرمایا ۔ ایک شخص نے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہماری ان بیماریوں میں ہمیں کیا ملتا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ تمہارے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں } اسے سن کر سیدنا کعب بن عجزہ رضی اللہ عنہ نے دعا مانگی کہ یا اللہ مرتے دم تک مجھ سے بخار جدا نہ ہو لیکن حج و عمرہ جہاد اور نماز با جماعت سے محروم نہ ہوں ان کی یہ دعا قبول ہوئی جب ان کے جسم پر ہاتھ لگایا جاتا تو بخار چڑھا رہتا ۔ ۱؎ (مسند احمد:23/3:صحیح) رضی اللہ عنہا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک مرتبہ کہا گیا کہ کیا ہر برائی کا بدلہ دیا جائے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، اسی جیسا اور اسی جتنا لیکن ہر بھلائی کا بدلہ دس گنا کر کے دیا جائے گا پس اس پر افسوس ہے جس کی اکائیاں دہائیوں سے بڑھ جائیں ۔ } ۱؎ (ضعیف:اسکی سند میں محمد بن سائب کلب راوی ضعیف ہے) [ ابن مردویہ ] حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس سے مراد کافر ہیں جیسے اور آیت میں ہے«وَہَلْ نُجٰزِیْٓ اِلَّا الْکَفُوْرَ» ۱؎ (34-سبأ:17) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہاں برائی سے مراد شرک ہے ۔ یہ شخص اللہ کے سوا اپنا کوئی ولی اور مددگار نہ پائے گا ، ہاں یہ اور بات ہے کہ توبہ کر لے ۔ امام ابن جریر فرماتے ہیں ٹھیک بات یہی ہے کہ ہر برائی کو یہ آیت شامل ہے جیسے کہ احادیث گذر چکیں «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بدعملیوں کی سزا کا ذکر کر کے اب نیک اعمال کی جزا کا بیان فرما رہا ہے بدی کی سزا یا تو دنیا میں ہی ہو جاتی ہے اور بندے کے لیے یہی اچھا ہے یا آخرت میں ہوتی ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے ، ہم اللہ تعالیٰ سے سوال کرتے ہیں کہ وہ ہمیں دونوں جہان کی عافیت عطا فرمائے اور مہربانی اور درگذر کرے اور اپنی پکڑ اور ناراضگی سے بچالے ۔ اعمال صالحہ کو اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور اپنے احسان و کرم و رحم سے انہیں قبول کرتا ہے کسی مرد عورت کے کسی نیک عمل کو وہ ضائع نہیں کرتا ہاں یہ شرط ہے کہ وہ ایماندار ہو ۔ ان نیک لوگوں کو وہ اپنی جنت میں داخل کرے گا اور ان کی حسنات میں کوئی کمی نہیں آنے دے گا ۔ فتیل کہتے ہیں اس گٹھلی کے درمیان جو ہلکا سا چھلکا ہوتا ہے اس کو مگر یہ دونوں تو کھجور کے بیج میں ہوتے ہیں اور قطمیر کہتے ہیں اس بیج کے اوپر کے لفافے کو اور یہ تینوں لفظ اس موقعہ پر قرآن میں آئے ہیں ۔ پھر فرمایا اس سے اچھے دین والا کون ہے ؟ جو اپنے اعمال خالص اسی کے لیے کرے ایمانداری اور نیک نیتی کے ساتھ اس کے فرمان کے مطابق اس کے احکام بجا لائے اور ہو بھی وہ محسن یعنی شریعت کا پابند دین حق اور ہدایت پر چلنے والا رسول کی حدیث پر عمل کرنے والا ہر نیک عمل کی قبولیت کے لیے یہ دونوں باتیں شرط ہیں ۔ یعنی خلوص اور وحی کے مطابق ہونا ، خلوص سے یہ مطلب کہ فقط اللہ کی رضا مندی مطلوب ہو اور ٹھیک ہونا یہ ہے کہ شرعیت کی ماتحتی میں ہو ، پس ظاہر تو قرآن حدیث کے موافق ہونے سے ٹھیک ہو جاتا ہے اور باطن نیک نیتی سے سنور جاتا ہے ، اگر ان دو باتوں میں سے ایک بھی نہ ہو تو وہ عمل فاسد ہوتا ہے ، اخلاص نہ ہونے سے منافقت آ جاتی ہے لوگوں کی رضا جوئی اور انہیں کھانا مقصود ہو جاتا ہے اور عمل قابل قبول نہیں رہتا . سنت کے موافق نہ ہونے سے ضلالت وجہالت کا مجموعہ ہو جاتا ہے اور اس سے بھی عمل پایہ قبولیت سے گر جاتا ہے اور چونکہ مومن کا عمل ریاکاری اور شرعیت کے مخالفت سے بچا ہوا ہوتا ہے اس لیے اس کا عمل سب سے اچھا عمل ہو جاتا ہے جو اللہ کو پسند آتا ہے اور اس کی جزا کا بلکہ اور گناہوں کی بخشش کا سبب بن جاتا ہے ۔ اعزاز خلیل کیوں اور کیسے ملا؟ اسی لیے اس کے بعد ہی فرمایا ملت ابراہیم حنیف علیہ السلام کی پیروی کرو یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے قدم بہ قدم چلنے والوں کی بھی جو قیامت تک ہوں ، جیسے اور آیت میں ہے«إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاہِیمَ لَلَّذِینَ اتَّبَعُوہُ وَہٰذَا النَّبِیٰ وَالَّذِینَ آمَنُوا» ۱؎ (3-آل عمران:68) یعنی { ابراہیم علیہ السلام سے قریب تر وہ لوگ ہیں جو ان کے ہر حکم کی تعمیل کرتے رہے اور نبی ہوئے ۔ } دوسری آیت میں فرمایا«ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ۭ وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ» ۱؎ (16-النحل:123) { پھر ہم نے تیری طرف وحی کی کہ ابراہیم حنیف کی ملت کی پیروی کر جو مشرک نہ تھے } حنیف کہتے ہیں قصداً شرک سے بیزار اور پوری طرح حق کی طرف متوجہ ہونے والا جسے کوئی روکنے والا روک نہ سکے اور کوئی ہٹانے والا ہٹا نہ سکے ۔ پھر خلیل اللہ علیہ السلام کی اتباع کی تاکید اور ترغیب کے لیے ان کا وصف بیان کیا کہ وہ اللہ کے دوست ہیں ، یعنی بندہ ترقی کر کے جس اعلیٰ سے اعلیٰ درجے تک پہنچ سکتا ہے اس تک وہ پہنچ گئے خلت کے درجے سے کوئی بڑا درجہ نہیں محبت کا یہ اعلیٰ تر مقام ہے اور یہاں تک ابراہیم علیہ السلام عروج کر گئے ہیں اس کی وجہ ان کی کامل اطاعت ہے جیسے فرمان ہے«وَاِبْرٰہِیْمَ الَّذِیْ وَفّیٰٓ» ۱؎ (53-النجم:37) { یعنی ابراہیم کو جو حکم ملا وہ اسے بخوشی بجالائے } کبھی اللہ کی مرضی سے منہ نہ موڑا ، کبھی عبادت سے نہ اکتائے کوئی چیز انہیں عبادت الہیہ سے مانع نہ ہوئی . اور آیت میں ہے «وَاِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰہٖمَ رَبٰہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَـمَّہُنَّ ۭ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۭ قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِیْ ۭ قَالَ لَا یَنَالُ عَہْدِی الظّٰلِمِیْنَ» ۱؎ (2-البقرۃ:124) جب جب جس جس طرح اللہ عزاسمہ نے ان کی آزمائش لی وہ پورے اترے جو جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا انہوں نے کر دکھایا ۔ فرمان ہے کہ«إِنَّ إِبْرَاہِیمَ کَانَ أُمَّۃً قَانِتًا لِّلَّـہِ حَنِیفًا وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِینَ شَاکِرًا لِّأَنْعُمِہِ ۚ اجْتَبَاہُ وَہَدَاہُ إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ وَآتَیْنَاہُ فِی الدٰنْیَا حَسَنَۃً ۖ وَإِنَّہُ فِی الْآخِرَۃِ لَمِنَ الصَّالِحِینَ » ۱؎ (16-النحل:122) { ابراہیم علیہ السلام مکمل یکسوئی سے توحید کے رنگ میں شرک سے بچتا ہوا ہمارا تابع فرمان بنا رہا ۔ } سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ نے یمن میں صبح کی نماز میں جب یہ آیت پڑھی تو ایک شخص نے کہا« لقدقررت عین ام ابراہیم» ابراہیم کی ماں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوئیں ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4348) بعض لوگ کہتے ہیں کہ خلیل اللہ لقب کی یہ وجہ ہوئی کہ ایک مرتبہ قحط سالی کے موقعہ پر آپ اپنے ایک دوست کے پاس مصر میں یا موصل میں گئے تاکہ وہاں سے کچھ اناج غلہ لے آئیں یہاں کچھ نہ ملا خالی ہاتھ لوٹے جب اپنی بستی کے قریب پہنچے تو خیال آیا آؤ اس ریت کے تودے میں سے اپنی بوریاں بھر کر لے چلو تاکہ گھر والوں کو قدرے تسکین ہو جائے چنانچہ بھر لیں اور جانوروں پر لاد کے لے چلے . اللہ تعالیٰ کی قدرت سے وہ ریت سچ مچ آٹا بن گئی آپ تو گھر پہنچ کر لیٹ رہے تھکے ہارے تو تھے ہی آنکھ لگ گئی گھر والوں نے بوریاں کھولیں اور انہیں بہترین آٹے سے بھرا ہوا پایا آٹا گوندھا روٹیاں پکائیں جب یہ جاگے اور گھر میں سب کو خوش خوش پایا اور روٹیاں بھی تیار دیکھیں تو تعجب سے پوچھنے لگے آٹا کہاں سے آیا ؟ جو تم نے روٹیاں پکائیں انہوں نے کہا آپ ہی تو اپنے دوست کے ہاں سے لائے ہیں اب آپ سمجھ گئے اور فرمایا ہاں یہ میں اپنے دوست اللہ عزوجل سے لایا ہوں پس اللہ نے بھی آپ کو اپنا دوست بنا لیا اور خلیل اللہ نام رکھ دیا ، لیکن اس کی صحت اور اس واقعہ میں ذرا تامل ہے ، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ بنی اسرائیل کی روایت ہے جسے ہم سچا نہیں کہہ سکتے گو جھٹلا بھی نہیں سکتے حقیقت یہ ہے کہ آپ کو یہ لقب اس لیے ملا کہ آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت حد درجہ کی تھی کامل اطاعت شعاری اور فرمانبرداری تھی اپنی عبادتوں سے اللہ تعالیٰ کو خوش کر لیا تھا { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے آخری خطبہ میں فرمایا تھا ، لوگو اگر میں زمین والوں میں سے کسی کو خلیل اور ولی دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر بن ابوقحافہ رضی اللہ عنہ کو بناتا بلکہ تمہارے ساتھی اللہ تعالیٰ کے خلیل ہیں ، } ۱؎ (صحیح مسلم:2383) اور روایت میں ہے { اللہ اعلیٰ واکرم نے جس طرح ابراہیم علیہ السلام کو خلیل بنا لیا تھا اسی طرح مجھے بھی اپنا خلیل کر لیا ہے ۔ } ۱؎ (صحیح مسلم:532) ایک مرتبہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے انتظار میں بیٹھے ہوئے آپس میں ذکر تذکرے کر رہے تھے ایک کہہ رہا تھا تعجب ہے کہ اللہ نے اپنی مخلوق میں سے ابراہیم علیہ السلام کو اپنا خلیل بنایا دوسرے نے کہا اس سے بھی بڑھ کر مہربانی یہ کہ موسیٰ علیہ السلام سے خود باتیں کیں اور انہیں کلیم بنایا ، ایک نے کہا اور عیسیٰ علیہ السلام تو روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہے ، ایک نے کہا آدم علیہ السلام صفی اللہ اور اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ ہیں . { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب باہر تشریف لائے سلام کیا اور یہ باتیں سنیں تو فرمایا بیشک تمہارا قول صحیح ہے ، ابراہیم علیہ السلام خلیل اللہ ہیں اور موسیٰ علیہ السلام کلیم اللہ ہیں اور عیسیٰ علیہ السلام روح اللہ اور کلمتہ اللہ ہیں اور آدم علیہ السلام صفی اللہ ہیں اور اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، مگر میں حقیقت بیان کرتا ہوں کچھ فخر کے طور پر نہیں کہتا کہ میں حبیب اللہ ہوں ، میں سب سے پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور سب سے پہلے شفاعت قبول کیا جانے والا ہوں اور سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دینے والا ہوں اللہ میرے لیے جنت کو کھول دے گا اور مجھے اس میں داخل کرے گا اور میرے ساتھ مومن فقراء ہوں گے قیامت کے دن تمام اگلوں پچھلوں سے زیادہ اکرام و عزت والا ہوں یہ بطور فخر کے نہیں بلکہ بطور سچائی کو معلوم کرانے کیلئے میں تم سے کہہ رہا ہوں . } ۱؎ (الدر المنثور للسیوطی:407/2:ضعیف) یہ حدیث اس سند سے تو غریب ہے لیکن اس کے بعض شاہد موجود ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں کیا تم اس سے تعجب کرتے ہو کہ خلت صرف ابراہیم علیہ السلام کے لیے تھی اور کلام موسیٰ علیہ السلام کے لیے تھا اور دیدار محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ۔ صلوات اللہ وسلامہ علیہم اجمعین [ مستدرک حاکم ] اسی طرح کی روایت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم تابعین رحمہ اللہ علیہم اور سلف وخلف سے مروی ہے ۔ ابن ابی حاتم میں ہے ابراہیم علیہ السلام کی عادت تھی کہ مہمانوں کے ساتھ کھائیں ۔ ایک دن آپ مہمان کی جستجو میں نکلے لیکن کوئی نہ ملا واپس آئے گھر میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ ایک شخص کھڑا ہوا ہے پوچھا اے اللہ کے بندے تجھے میرے گھر میں آنے کی اجازت کس نے دی ؟ اس نے کہا اس مکان کے حقیقی مالک نے ، پوچھا تم کون ہو ؟ کہا میں ملک الموت ہوں مجھے اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے پاس اس لیے بھیجا ہے کہ میں اسے یہ بشارت سنا دوں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنا خلیل بنا لیا ہے ۔ یہ سن کر ابراہیم علیہ السلام نے کہا پھر تو مجھے ضرور بتائیے کہ وہ بزرگ کون ہیں ؟ اللہ عزوجل کی قسم اگر وہ زمین کے کسی دور کے گوشے میں بھی ہوں گے میں ضرور جا کر ان سے ملاقات کروں گا پھر اپنی باقی زندگی ان کے قدموں میں ہی گزاروں گا یہ سن کر ملک الموت نے کہا کہ وہ شخص خود آپ ہیں ۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کیا سچ مچ میں ہی ہوں ؟ فرشتے نے کہا ہاں آپ ہی ہیں ۔ آپ نے پھر دریافت فرمایا کہ آپ مجھے یہ بھی بتائیں گے کہ کس بنا پر کن کاموں پر اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا خلیل بنایا ؟ فرشتے نے فرمایا اس لیے کہ تم ہر ایک کو دیتے رہتے ہو اور خود کسی سے کچھ طلب نہیں کرتے ۔ اور روایت میں ہے ۔ جب ابراہیم علیہ الصلٰوۃ والسلام کو خلیل اللہ کے ممتاز اور مبارک لقب سے اللہ نے ملقب کیا تب سے تو ان کے دل میں اس قدر خوف رب اور ہیبت رب سما گئی کہ ان کے دل کا اچھلنا دور سے اس طرح سنا جاتا تھا جس طرح فضا میں پرندے کے پرواز کی آواز ۔ صحیح حدیث میں { جناب رسول آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت بھی وارد ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کا خوف آپ پر غالب آ جاتا تھا تو آپ کے رونے کی آواز جسے آپ ضبط کرتے جاتے تھے اس طرح دور و نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی جیسے کسی ہنڈیا کے کھولنے کی آواز ہو } ۔ ۱؎ (سنن ترمذی:322،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے سب اللہ کی ملکیت میں اور اس کی غلامی میں اور اسی کا پیدا کیا ہوا ہے ۔ جس طرح جب جو تصرف ان میں وہ کرنا چاہتا ہے بغیر کسی روک ٹوک کے بلامشورہ غیرے اور بغیر کسی کی شراکت اور مدد کے کر گذرتا ہے کوئی نہیں جو اس کے ارادے سے اسے باز رکھ سکے کوئی نہیں جو اس کے حکم میں حائل ہو سکے کوئی نہیں جو اس کی مرضی کو بدل سکے وہ عظمتوں اور قدرتوں والا وہ عدل وحکمت والا وہ لطف و رحم والا واحد وصمد اللہ ہے ۔ اس کا علم ہر چھوٹی بڑی چیز کو گھیرے ہوئے ہے ، مخفی سے مخفی اور چھوٹی سے چھوٹی اور دور سے دور والی چیز بھی اس پر پوشیدہ نہیں ، ہماری نگاہوں سے جو پوشیدہ ہیں اس کے علم میں سب ظاہر ہیں ۔