سورة النسآء - آیت 116

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَن يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَن يَشَاءُ ۚ وَمَن يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اللہ یہ بات بخشنے والا نہیں کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا جائے۔ اس کے سوا جتنے گناہ ہیں وہ جسے چاہے بخش دے اور جس کسی نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا تو وہ بھٹک کر سیدھے راستے سے بہت دور جا پڑا۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

مشرک کی پہچان اور ان کا انجام اس سورت کے شروع میں پہلی آیت کے متعلق ہم پوری تفسیر کر چکے ہیں اور وہیں اس آیت سے تعلق رکھنے والی حدیثیں بھی بیان کر دی ہیں ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے قرآن کی کوئی آیت مجھے اس آیت سے زیادہ محبوب نہیں ۱؎ (سنن ترمذی:3037،قال الشیخ الألبانی:ضعیف) مشرکین سے دنیا اور آخرت کی بھلائی دور ہو جاتی ہے اور وہ راہ حق سے دور ہو جاتے ہیں وہ اپنے آپ کو اور اپنے دونوں جہانوں کو برباد کر لیتے ہیں ، یہ مشرکین عورتوں کے پرستار ہیں ، سیدنا کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ہر صنم کے ساتھ ایک جننی عورت ہے ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں «اِنَاثًا» سے مراد بت ہیں ، یہ قول اور بھی مفسرین کا ہے ۔ ضحاک رحمہ اللہ کا قول ہے کہ مشرک فرشتوں کو پوجتے تھے اور انہیں اللہ کی لڑکیاں مانتے تھے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:209/9) اور کہتے تھے کہ ان کی عبادت سے- ہماری اصل غرض اللہ عزوجل کی نزدیکی حاصل کرنا ہے اور ان کی تصویریں عورتوں کی شکل پر بناتے تھے پھر حکم کرتے تھے اور تقلید کرتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ صورتیں فرشتوں کی ہیں جو اللہ کی لڑکیاں ہیں ۔ یہ تفسیر «اَفَرَءَیْتُمُ اللّٰتَ وَالْعُزّٰی» ۱؎ (53-النجم:19) ’ کیا تم نے ﻻت اور عزیٰ کو دیکھا ‘ کے مضمون سے خوب ملتی ہے جہاں ان کے بتوں کے نام لے کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ خوب انصاف ہے کہ لڑکے تو تمہارے اور لڑکیاں میری ؟ اور آیت میں ہے «وَجَعَلُوا الْمَلٰۗیِٕکَۃَ الَّذِیْنَ ہُمْ عِبٰدُ الرَّحْمٰنِ اِنَاثًا ۭاَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ ۭ سَـتُکْتَبُ شَہَادَتُہُمْ وَیُسْــَٔــلُوْنَ» ۱؎ (43-الزخرف:19) ’ اور انہوں نے فرشتوں کو جو رحمٰن کے عبادت گزار ہیں عورتیں قرار دے لیا۔ کیا ان کی پیدائش کے موقع پر یہ موجود تھے؟ ان کی یہ گواہی لکھ لی جائے گی اور ان سے (اس چیز کی) باز پرس کی جائے گی۔ ‘ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں«اناث» مراد مردے ہیں ، حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہر بے روح چیز «اناث» ہے خواہ خشک لکڑی ہو خواہ پتھر ہو ، لیکن یہ قول غریب ہے ۔ پھر ارشاد ہے کہ«أَلَمْ أَعْہَدْ إِلَیْکُمْ یَا بَنِی آدَمَ أَن لَّا تَعْبُدُوا الشَّیْطَانَ» ۱؎ (36-یس:60) ’ اے بنی آدم کیا میں نے تم سے شیطان کی عبادت نہ کرنے کا وعدہ نہیں لیا تھا ؟ ‘ اسی وجہ سے فرشتے قیامت کے دن صاف کہہ دینگے کہ ہماری عبادت کے دعوےدار دراصل شیطانی پوجا کے پھندے میں تھے ، شیطان کو رب نے اپنی رحمت سے دورکر دیا ہے اور اپنی بارگاہ سے نکال باہر کیا ہے ، اس نے بھی بیڑا اٹھا رکھا ہے کہ اللہ کے بندوں کو معقول تعداد میں بہکائے ۔ مقاتل بن حیان رحمہ اللہ فرماتے ہیں یعنی ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے کو جہنم میں اپنے ساتھ لے جائے گا ، ایک بچ رہے گا جو جنت کا مستحق ہو گا ، شیطان نے کہا ہے کہ میں انہیں حق سے بہکاؤں گا اور انہیں اُمید دلاتا رہوں گا یہ توبہ ترک کر بیٹھیں گے ، خواہشوں کے پیچھے پڑ جائیں گے موت کو بھول بیٹھیں گے نفس پروری اور آخرت سے غافل ہو جائیں گے ، جانوروں کے کان کاٹ کر یا سوراخ دار کر کے اللہ کے سوا دوسروں کے نام کرنے کی انہیں تلقین کروں گا ، اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو بگاڑنا سکھاؤں گا جیسے جانوروں کو خصی کرنا ۔ ایک حدیث میں اس سے بھی ممانعت آئی ہے شاید مراد اس سے نسل منقطع کرنے کی غرض سے ایسا کرنا ہے ۔ ایک معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چہرے پر گودنا گدوانا ، جو صحیح مسلم کی حدیث میں ممنوع ہے ۱؎ (صحیح مسلم:2116) اور جس کے کرنے والے پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2117) سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے مروی ہے کہ ’ گود نے والیوں اور گدوانے والیوں ، پیشانی کے بال نوچنے والیوں اور نچوانے والیوں اور دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر جو حسن و خوبصورتی کے لیے اللہ کی بناوٹ کو بگاڑتی ہیں اللہ کی لعنت ہے ‘ میں ان پر لعنت کیوں نہ بھیجوں ؟ جن پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ میں موجود ہے پھر آپ نے «وَمَآ اٰتٰیکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ ۤ وَمَا نَہٰیکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّٰہَ ۭ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ» ۱؎ (59-الحشر:7) پڑھی ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:5931) بعض اور مفسرین کرام سے مروی ہے کہ مراد اللہ کے دین کو بدل دینا ہے جیسے اور آیت میں ہے «فَاَقِمْ وَجْہَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا ۭ فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْہَا ۭ لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ۭ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْـقَیِّمُ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ» ۱؎ (30-الروم:30) ’ یعنی اپنا چہرہ قائم رکھ کر اللہ کے یکطرفہ دین کا رخ اختیار کرنا یہ اللہ کی وہ فطرت ہے جس پر تمام انسانوں کو اس نے پیدا کیا ہے اللہ کی خلق میں کوئی تبدیلی نہیں ۔ ‘ اس سے پچھلے [ آخری ] جملے کو اگر امر کے معنی میں لیا جائے تو یہ تفسیر ٹھیک ہو جاتی ہے یعنی اللہ کی فطرف کو نہ بدلو لوگوں کو میں نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اسی پر رہنے دو ۔ بخاری و مسلم میں ہے ’ ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے ماں باپ پھر اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا لیتے ہیں ‘ جیسے بکری کا صحیح سالم بچہ بےعیب ہوتا ہے لیکن پھر لوگ اس کے کان وغیرہ کاٹ دیتے ہیں اور اسے عیب دار کر دیتے ہیں ۱؎ (صحیح بخاری:4775) صحیح مسلم میں ہے اللہ عزوجل فرماتا ہے ’ میں نے اپنے بندوں کو یکسوئی والے دین پر پیدا کیا لیکن شیطان نے آکر انہیں بہکا دیا پھر میں نے اپنے حلال کو ان پر حرام کر دیا ۔‘ ۱؎ (صحیح مسلم:2865) شیطان کو دوست بنانے والا اپنا نقصان کرنے والا ہے جس نقصان کی کبھی تلافی نہ ہو سکے ۔ کیونکہ شیطان انہیں سبز باغ دکھاتا رہتا ہے غلط راہوں میں ان کی فلاح وبہود کا یقین دلاتا ہے دراصل وہ بڑا فریب اور صاف دھوکا ہوتا ہے ۔ چنانچہ شیطان قیامت کے دن صاف کہے گا اللہ کے وعدے سچے تھے اور میں تو وعدہ خلاف ہوں ہی میرا کوئی زور تم پر تھا ہی نہیں میری پکار کو سنتے ہی کیوں تم مست و بےعقل بن گئے ؟ اب مجھے کیوں کوستے ہو ؟ اپنے آپ کو برا کہو ۔ شیطانی وعدوں کو صحیح جاننے والے اس کی دلائی ہوئی اُمیدوں کو پوری ہونے والی سمجھنے والے آخر جہنم واصل ہو نگے جہاں سے چھٹکارا محال ہو گا ۔ ان بدبختوں کے ذکر کے بعد اب نیک لوگوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جو دل سے میرے ماننے والے ہیں اور جسم سے میری تابعداری کرنے والے ہیں میرے احکام پر عمل کرتے ہیں میری منع کردہ چیزوں سے باز رہتے ہیں میں انہیں اپنی نعمتیں دوں گا انہیں جنتوں میں لے جاؤں گا جن کی نہریں جہاں یہ چاہیں خودبخود بہنے لگیں جن میں زوال ، کمی یا نقصان بھی نہیں ہے ، اللہ کا یہ وعدہ اصل اور بالکل سچا ہے اور یقیناً ہونے والا ہے اللہ سے زیادہ سچی بات اور کس کی ہو گی ؟ اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں نہ ہی کوئی اس کے سوا مربی ہے ۔ ’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبے میں فرمایا کرتے تھے سب سے زیادہ سچی بات اللہ کا کلام ہے اور سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے اور تمام کاموں میں سب سے برا کام دین میں نئی بات نکالنا ہے اور ہر ایسی نئی بات کا نام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی اور ہر گمراہی جہنم میں ہے ۔ ‘ ۱؎ (صحیح مسلم:867)