قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ
کامیاب ہوا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی
جس نے صلوٰۃ کو بروقت ادا کیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’ جس نے رذیل اخلاق سے اپنے تئیں پاک کر لیا ، احکام اسلام کی تابعداری کی ، نماز کو ٹھیک وقت پر قائم رکھا ، صرف اللہ تعالیٰ کی رضا مندی اور اس کی خوشنودی طلب کرنے کے لیے اس نے نجات اور فلاح پا لی ‘ ۔ { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کر کے فرمایا کہ ” جو شخص اللہ تعالیٰ کے «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہونے کی گواہی دے اس کے سوال کسی کی عبادت نہ کرے اور میری رسالت کو مان لے اور پانچوں وقت کی نمازوں کی پوری طرح حفاظت کرے وہ نجات پا گیا “ } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2284،ضعیف) سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس سے مراد پانچ وقت کی نماز ہے ۔ ابوالعالیہ رحمہ اللہ نے ایک مرتبہ ابوخلدہ رحمہ اللہ سے فرمایا کہ کل جب عید گاہ جاؤ تو مجھ سے ملتے جانا ، جب میں گیا تو مجھ سے کہا : کچھ کھا لیا ہے ؟ میں نے کہا : ہاں ، فرمایا : نہا چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : زکوٰۃ فطر ادا کر چکے ہو ؟ میں نے کہا ہاں ، فرمایا : بس یہی کہنا تھا کہ اس آیت میں یہی مراد ہے ۔ اہل مدینہ فطرہ سے اور پانی پلانے سے افضل اور کوئی صدقہ نہیں جانتے تھے ، عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ بھی لوگوں کو فطرہ ادا کرنے کا حکم کرتے پھر اسی آیت کی تلاوت کرتے ، ابوالاحواص رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تم میں سے کوئی نماز کا ارادہ کرے اور کوئی سائل آ جائے تو اسے خیرات دے دے ، پھر یہی آیت پڑھی ۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اس نے اپنے مال کو پاک کر لیا اور اپنے رب کو راضی کر لیا ، پھر ارشاد ہے کہ تم دنیا کی زندگی کو آخرت کی زندگی پر ترجیح دے رہے ہو اور دراصل تمہاری مصلحت تمہارا نفع اخروی زندگی کو دنیوی زندگی پر ترجیح دینے میں ہے ۔ دنیا ذلیل ہے ، فانی ہے ، آخرت شریف ہے ، باقی ہے ۔ کوئی عاقل ایسا نہیں کر سکتا کہ فانی کو باقی کی جگہ اختیار کر لے اور اس فانی کے انتظام میں پڑ کر اس باقی کے اہتمام کو چھوڑ دے ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” دنیا اس کا گھر ہے جس کا آخرت میں نہ ہو ، دنیا اس کا مال ہے جس کا مال وہاں نہ ہو ۔ اسے جمع کرنے کے پیچھے وہ لگتے ہیں جو بیوقوف ہیں } ۔ ۱؎ (مسند احمد:81/6،ضعیف) ابن جریر میں ہے کہ عرفجہ ثقفی اس سورت کو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس پڑھ رہے تھے جب یہ اس آیت پر پہنچے تو تلاوت چھوڑ کر اپنے ساتھیوں سے فرمانے لگے کہ سچ ہے ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح دی ، لوگ خاموش رہے تو آپ نے پھر فرمایا کہ اس لیے کہ ہم دنیا کے گرویدہ ہو گئے کہ یہاں کی زینت کو ، یہاں کی عورتوں کو ، یہاں کے کھانے پینے کو ، ہم نے دیکھ لیا آخرت نظروں سے اوجھل ہے اس لیے ہم نے اس سامنے والی کی طرف توجہ کی اور اس نظر نہ آنے والی سے آنکھیں پھیر لیں ۔ یا تو یہ فرمان سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کا بطور تواضع کے ہے یا جنس انسان کی بابت فرماتے ہیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” جس نے دنیا سے محبت کی اس نے اپنی آخرت کو نقصان پہنچایا اور جس نے آخرت سے محبت رکھی اس نے دنیا کو نقصان پہنچایا ، تم ، اے لوگو ! باقی رہنے والی کو فنا ہونے والی پر ترجیح دو } ۔ ۱؎ (مسند احمد:412/4،حسن لغیرہ) پھر فرماتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کے صحیفوں میں بھی یہ تھا { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ سب بیان ان صحیفوں میں بھی تھا } ۔ ۱؎ (مسند بزار:2285،ضعیف) نسائی میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مروی ہے اور جب آیت «وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّیٰ» ۱؎ (53-النجم:37) نازل ہوئی تو فرمایا کہ «أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ» ۱؎ (53-النجم:38) اس سے مراد یہ ہے کہ ایک کا بوجھ دوسرے کو نہ اٹھانا ہے ۔ سورۃ النجم میں ہے «أَمْ لَمْ یُنَبَّأْ بِمَا فِی صُحُفِ مُوسَیٰ» * «وَإِبْرَاہِیمَ الَّذِی وَفَّیٰ» * «أَلَّا تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَیٰ» * «وَأَنْ لَیْسَ لِلْإِنْسَانِ إِلَّا مَا سَعَیٰ» * «وَأَنَّ سَعْیَہُ سَوْفَ یُرَیٰ» * «ثُمَّ یُجْزَاہُ الْجَزَاءَ الْأَوْفَیٰ» * «وَأَنَّ إِلَیٰ رَبِّکَ الْمُنْتَہَیٰ» * «وَأَنَّہُ ہُوَ أَضْحَکَ وَأَبْکَیٰ» * «وَأَنَّہُ ہُوَ أَمَاتَ وَأَحْیَا» ۱؎ (53-النجم:42-36) آخری مضمون تک کی تمام آیتیں یعنی یہ سب احکام اگلی کتابوں میں بھی تھے اسی طرح یہاں بھی مراد «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْأَعْلَی» کی یہ آیتیں ہیں ۔ بعض نے پوری سورت کہی ہے بعض نے «قَدْ أَفْلَحَ» ۱؎ (87-الأعلی:14) سے «خَیْرٌ وَأَبْقَیٰ» (87-الأعلی:17) تک کہا ہے زیادہ قوی بھی یہی قول معلوم ہوتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» «الْحَمْدُ لِلّٰہ» سورۃ سبح کی تفسیر ختم ہوئی ۔ «وَلِلہِ الْحَمْد وَالْمِنَّۃ وَبِہِ التَّوْفِیق وَالْعِصْمَۃ»