وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَن يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ
اور ان خندق والوں کی دشمنی مسلمانوں سے محض اس بنا پر تھی کہ وہ اس خدا پر ایمان لے آئے تھے جوزبردست اور ستودہ صفات ہے
1 اور اس عداوت و عذاب کا سبب ان مومنوں کا کوئی قصور نہ تھا ، انہیں تو صرف ان کی ایمان داری پر غضب و غصہ تھا دراصل غلبہ رکھنے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے اس کی پناہ میں آ جانے والا کبھی برباد نہیں ہوتا وہ اپنے تمام اقوال افعال شریعت اور تقدیر میں قابل تعریف ہے وہ اگر اپنے خاص بندوں کو کسی وقت کافروں کے ہاتھ سے تکلیف بھی پہنچا دے اور اس کا راز کسی کو معلوم نہ ہو سکے تو نہ ہو لیکن دراصل وہ مصلحت و حکمت کی بنا پر ہی ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کے پاکیزہ اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ زمینوں ، آسمانوں اور کل مخلوقات کا مالک ہے ، اور وہ ہر چیز پر حاضر ناظر ہے ، کوئی چیز اس سے مخفی نہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ” یہ واقعہ اہل فارس کا ہے ان کے بادشاہ نے یہ قانون جاری کرنا چاہا کہ محرمات ابدیہ یعنی ماں بہن بیٹی وغیرہ سب حلال ہیں اس وقت کے علماء کرام نے اس کا انکار کیا اور روکا ، اس پر اس نے خندقیں کھدوا کر اس میں آگ جلا کر ان حضرات کو اس میں ڈال دیا ، چنانچہ یہ اہل فارس آج تک ان عورتوں کو حلال ہی جانتے ہیں۔ “ یہ بھی مروی ہے کہ یہ لوگ یمنی تھے ، مسلمانوں اور کافروں میں لڑائی ہوئی مسلمان غالب آ گئے پھر دوسری لڑائی میں کافر غالب آ گئے تو انہوں نے گڑھے کھدوا کر ایمان والوں کو جلا دیا ، یہ بھی مروی ہے کہ یہ واقعہ اہل حبش کا ہے یہ بھی مروی ہے کہ یہ واقعہ بنی اسرائیل کا ہے انہوں نے دانیال اور ان کے ساتھیوں کے ساتھ یہ سلوک کیا تھا اور اقوال بھی ہیں ۔ مسند احمد میں ہے { رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اگلے زمانے میں ایک بادشاہ تھا اس کے ہاں ایک جادوگر تھا ، جب جادوگر بوڑھا ہو گیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ اب میں بوڑھا ہو گیا ہوں اور میری موت کا وقت آ رہا ہے مجھے کوئی بچہ سونپ دو تو میں اسے جادو سکھا دوں چنانچہ ایک ذہین لڑکے کو وہ تعلیم دینے لگا لڑکا اس کے پاس جاتا تو راستے میں ایک راہب کا گھر پڑتا جہاں وہ عبادت میں اور کبھی وعظ میں مشغول ہوتا یہ بھی کھڑا ہو جاتا اور اس کے طریق عبادت کو دیکھتا اور وعظ سنتا آتے جاتے یہاں رک جایا کرتا تھا ، جادوگر بھی مارتا اور ماں باپ بھی کیونکہ وہاں بھی دیر میں پہنچتا اور یہاں بھی دیر میں آتا ، ایک دن اس بچے نے راہب کے سامنے اپنی یہ شکایت بیان کی راہب نے کہا کہ جب جادوگر تجھ سے پوچھے کہ کیوں دیر لگ گئی تو کہہ دینا گھر والوں نے روک لیا تھا اور گھر والے پوچھیں تو کہہ دینا کہ آج جادوگر نے روک لیا تھا ، یونہی ایک زمانہ گزر گیا کہ ایک طرف تو جادو سیکھتا تھا اور دوسری جانب کلام اللہ اور دین اللہ سیکھتا تھا ایک دن وہ دیکھتا ہے کہ راستے میں ایک زبردست ہیبت ناک جانور پڑا ہوا ہے ، اس نے لوگوں کی آمد و رفت بند کر رکھی ہے ادھر والے ادھر اور ادھر والے ادھر نہیں آ سکتے ، اور سب لوگ ادھر ادھر حیران و پریشان کھڑے ہیں اس نے اپنے دل میں سوچا کہ آج موقعہ ہے کہ میں امتحان کر لوں کہ راہب کا دین اللہ کو پسند ہے یا جادوگر کا ؟ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور یہ کہہ کر اس پر پھینکا کہ اللہ اگر تیرے نزدیک راہب کا دین اور اس کی تعلیم جادوگر کے امر سے زیادہ محبوب ہے تو تو اس جانور کو اس پتھر سے ہلاک کر دے تاکہ لوگوں کو اس بلا سے نجات ملے پتھر کے لگتے ہی وہ جانور مر گیا اور لوگوں کا آنا جانا شروع ہو گیا پھر جا کر راہب کو خبر دی اس نے کہا پیارے بچے تو مجھ سے افضل ہے اب اللہ کی طرف سے تیری آزمائش ہو گی اگر ایسا ہوا تو تو کسی کو میری خبر نہ کرنا ، اب اس بچے کے پاس حاجت مند لوگوں کو تانتا لگ گیا اور اس کی دعا سے مادر زاد اندھے کوڑھی جذامی اور ہر قسم کے بیمار اچھے ہونے لگے ۔} { بادشاہ کے ایک نابینا وزیر کے کان میں بھی یہ آواز پڑی وہ بڑے تحائف لے کر حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ اگر تو مجھے شفاء دیدے تو یہ سب تجھے دے دوں گا اس نے کہا شفاء میرے ہاتھ نہیں میں کسی کو شفاء نہیں دے سکتا شفاء دینے والا اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ» ہے اگر تو اس پر ایمان لانے کا وعدہ کرے تو میں اس سے دعا کروں اس نے اقرار کیا بچے نے اس کے لیے دعا کی اللہ نے اسے شفاء دے دی اور بادشاہ کے دربار میں آیا اور جس طرح اندھا ہونے سے پہلے کام کرتا تھا کرنے لگا ، اور آنکھیں بالکل روشن تھیں بادشاہ نے متعجب ہو کر پوچھا کہ تجھے آنکھیں کس نے دیں ؟ اس نے کہا میرے رب نے بادشاہ نے کہا ، ہاں یعنی میں نے ، وزیر نے کہا ، نہیں نہیں ، میرا اور تیرا رب اللہ ہے ، بادشاہ نے کہا ، اچھا تو کیا میرے سوا تیرا کوئی اور بھی رب ہے ؟ وزیر نے کہا ہاں میرا اور تیرا رب اللہ عزوجل ہے ۔ اب اس نے اسے مار پیٹ شروع کر دیا اور طرح طرح کی تکلیفیں اور ایذائیں پہنچانے لگا اور پوچھنے لگا کہ تجھے یہ تعلیم کس نے دی ؟ آخر اس نے بتا دیا کہ اس بچے کے ہاتھ پر میں نے اسلام قبول کیا اور اس نے اسے بلوایا اور کہا اب تو تم جادو میں خوب کامل ہو گئے ہو کہ اندھوں کو دیکھتا اور بیماروں کو تندرست کرنے لگ گئے اس نے کہا غلط ہے نہ میں کسی کو شفاء دے سکتا ہوں نہ جادو ، شفاء تو اللہ عزوجل کے ہاتھ میں ہے کہنے لگا ہاں یعنی میرے ہاتھ میں ہے ، کیونکہ اللہ تو میں ہی ہوں اس نے کہا ہرگز نہیں ، کہا پھر کیا تو میرے سوا کسی اور کو رب مانتا ہے ؟ تو وہ کہنے لگا ہاں ! میرا اور تیرا رب اللہ تعالیٰ ہے اس نے اب اسے بھی طرح طرح کی سزائیں دینی شروع کیں یہاں تک کہ راہب کا پتہ لگا لیا راہب کو بلا کر اس نے کہا کہ تو اسلام کو چھوڑ دے اور اس دین سے پلٹ جا ، اس نے انکار کیا تو اس بادشاہ نے آرے سے اس کے چہرے کو چیر دیا اور ٹھیک دو ٹکڑے کر کے پھینک دیا پھر اس نوجوان سے کہا کہ تو بھی دین سے پھر جا مگر اس نے بھی انکار کر دیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ ہمارے سپاہی اسے فلاں فلاں پہاڑ پر لے جائیں اور اس کی بلند چوٹی پر پہنچ کر پھر اسے اس کے دین چھوڑ دینے کو کہیں اگر مان لے تو اچھا ورنہ وہیں سے لڑھکا دیں ۔} { چنانچہ یہ لوگ اسے لے گئے جب وہاں سے دھکا دینا چاہا تو اس نے اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا کی « اللہُمَّ اِکْفِنِیہِمْ بِمَا شِئْت» اللہ جس طرح چاہ مجھے ان سے نجات دے ، اس دعا کے ساتھ پہاڑ ہلا اور وہ سب سپاہی لڑھک گئے صرف وہ بچہ بچا رہا ، وہاں سے وہ اترا اور ہنسی خوشی پھر اس ظالم بادشاہ کے پاس آ گیا ، بادشاہ نے کہا یہ کیا ہوا میرے سپاہی کہاں ہیں ؟ فرمایا : میرے اللہ نے مجھے ان سے بچا لیا اس نے کچھ اور سپاہی بلوائے اور ان سے بھی یہی کہا کہ اسے کشتی میں بٹھا کر لے جاؤ ، اور بیچوں بیچ سمندر میں ڈبو کر چلے آؤ یہ اسے لے کر چلے اور بیچ میں پہنچ کر جب سمندر میں پھینکنا چاہا تو اس نے پھر وہی دعا کی کہ بار الٰہی جس طرح چاہ مجھے ان سے بچا ، موج اٹھی اور وہ سپاہی سارے کے سارے سمندر میں ڈوب گئے صرف وہ بچہ ہی باقی رہ گیا یہ پھر بادشاہ کے پاس آیا ، اور کہا میرے رب نے مجھے ان سے بھی بچا لیا ، اے بادشاہ تو چاہے تمام تدبیریں کر ڈال لیکن مجھے ہلاک نہیں کر سکتا ہاں جس طرح میں کہوں اس طرح اگر کرے تو البتہ میری جان نکل جائے گی ۔ اس نے کہا کیا کروں فرمایا تو لوگوں کو ایک میدان میں جمع کر پھر کھجور کے تنے پر سولی چڑھا اور میرے ترکش میں سے ایک تنکا نکال میری کمان پر چڑھا اور «بِسْمِ اللَّہ رَبّ ھٰذا الْغُلَام» یعنی اسی اللہ کے نام سے جو اس بچے کا رب ہے کہہ کر وہ تیر میری طرف پھینک وہ مجھے لگے اور اس سے میں مروں گا چنانچہ بادشاہ نے یہی کیا تیر بچے کی کنپٹی میں لگا اس نے اپنا ہاتھ اس جگہ رکھ لیا اور شہید ہو گیا ۔ اس کے اس طرح شہید ہوتے ہی لوگوں کو اس کے دین کی سچائی کا یقین آ گیا چاروں طرف سے یہ آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہم سب اس بچے کے رب پر ایمان لا چکے یہ حال دیکھ کر بادشاہ کے مصاحب گھبرائے اور بادشاہ سے کہنے لگے اس لڑکے کی ترکیب ہم سمجھے ہی نہیں دیکھئیے اس کا یہ اثر پڑا کہ یہ تمام لوگ اس کے مذہب پر ہو گئے ہم نے تو اسی لیے قتل کیا تھا کہ کہیں یہ مذہب پھیل نہ جائے لیکن وہ ڈر تو سامنے ہی آ گیا اور سب مسلمان ہو گئے ۔ بادشاہ نے کہا اچھا یہ کرو کہ تمام محلوں اور راستوں میں خندقیں کھدواؤ ان میں لکڑیاں بھرو اور اس میں آگ لگا دو جو اس دین سے پھر جائے اسے چھوڑ دو اور جو نہ مانے اسے اس آگ میں ڈال دو ان مسلمانوں نے صبر و ضبط کے ساتھ آگ میں جلنا منظور کر لیا اور اس میں کود کود گرنے لگے ، البتہ ایک عورت جس کی گود میں دودھ پیتا چھوٹا بچہ تھا وہ ذرا ہچکچائی تو اس بچہ کو اللہ نے بولنے کی طاقت دی اس نے کہا اماں کیا کر رہی ہو تم تو حق پر ہو صبر کرو اور اس میں کود پڑو ۔} ۱؎ (صحیح مسلم:3005) یہ حدیث مسند احمد میں بھی ہے اور صحیح مسلم کے آخر میں بھی ہے اور نسائی میں بھی قدرے اختصار کے ساتھ ہے ۔ ترمذی شریف کی حدیث میں ہے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز کے بعد عموماً زیر لب کچھ فرمایا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ کیا فرماتے ہیں ، فرمایا : ” نبیوں میں سے ایک نبی تھے جو اپنی امت پر فخر کرتے تھے کہنے لگے کہ ان کی دیکھ بھال کون کرے گا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ انہیں اختیار ہے خواہ اس بات کو پسند کریں کہ میں خود ان سے انتقام لوں خواہ اس بات کو پسند کریں کہ میں ان پر ان کے دشمنوں کو مسلط کروں ، انہوں نے انتقام کو پسند کیا چنانچہ ایک ہی دن میں ان میں سے ستر ہزار مر گئے “ ۔ } اس کے ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بھی بیان کی جو اوپر گزری پھر آخیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ» سے «ذُو الْعَرْشِ الْمَجِیدُ» ۱؎ (85-البروج:4-15) تک کی آیتوں کی تلاوت فرمائی ۔ یہ نوجوان شہید دفن کر دئیے گئے تھے اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانہ میں ان کی قبر سے انہیں نکالا گیا تھا ان کی انگلی اسی طرح ان کی کنپٹی پر رکھی ہوئی تھی جس طرح بوقت شہادت تھی ، امام ترمذی اسے حسن غریب بتلاتے ہیں۔ ۱؎ (سنن ترمذی:3340،قال الشیخ الألبانی:صحیح) لیکن اس روایت میں یہ صراحت نہیں کہ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا تو ممکن ہے کہ صہیب رومی رضی اللہ عنہ نے ہی اس واقعہ کو بیان فرمایا ہو ان کے پاس نصرانیوں کی ایسی حکایتیں بہت ساری تھیں ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» امام محمد بن اسحاق رحمہ اللہ نے بھی اس قصہ کو دوسرے الفاظ میں بیان فرمایا ہے ، جو اس کے خلاف ہے وہ کہتے ہیں کہ نجرانی لوگ بت پرست مشرک تھے ، اور نجران کے پاس ایک چھوٹا سا گاؤں تھا ۔ جس میں ایک جادوگر تھا ، نجرانیوں کو جادو سکھایا کرتا تھا ۔ فیمون نامی ایک بزرگ عالم یہاں آئے اور نجران اور اس کے گاؤں کے درمیان انہوں نے اپنا پڑاؤ ڈالا ۔ شہر کے لڑکے جو جادوگر سے جادو سیکھنے جایا کرتے تھے ان میں تاجر کا ایک لڑکا عبداللہ نامی بھی تھا اسے آتے جاتے راہب کی عبادت اور اس کی نماز وغیرہ کے دیکھنے کا موقعہ ملتا اس پر غور و خوض کرتا اور دل میں اس کے مذہب کی سچائی جگہ کرتی جاتی پھر تو اس نے یہاں آنا جانا شروع کر دیا ۔ اور مذہبی تعلیم بھی اس راہب سے لینے لگا ۔ کچھ دنوں بعد اس مذہب میں داخل ہو گیا اور اسلام قبول کر لیا توحید کا پابند ہو گیا اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگا اور علم دین اچھی طرح حاصل کر لیا وہ راہب اسم اعظم بھی جانتا تھا اس نے ہر چند خواہش کی کہ اسے بتا دے لیکن اس نے نہ بتایا اور کہہ دیا کہ ابھی تم میں اس کی صلاحیت نہیں آئی تم ابھی کمزور دل والے ہو اس کی طاقت میں تم میں نہیں پاتا ۔ عبداللہ کے باپ تامر کو اپنے بیٹے کے مسلمان ہو جانے کی مطلق خبر نہ تھی وہ اپنے نزدیک یہی سمجھ رہا تھا کہ میرا بیٹا جادو سیکھ رہا ہے ، اور وہیں جاتا آتا رہتا ہے۔ عبداللہ نے جب دیکھا کہ راہب مجھے اسم اعظم نہیں سکھاتے اور انہیں میری کمزوری کا خوف ہے تو ایک دن انہوں نے تیر لیے اور جتنے نام اللہ تبارک و تعالیٰ کے انہیں یاد تھے ہر تیر پر ایک نام لکھا پھر آگ جلا کر بیٹھ گیا اور ایک ایک تیر کو اس میں ڈالنا شروع کیا جب وہ تیر آیا جس پر اسم اعظم تھا تو وہ آگ میں پڑتے ہی اچھل کر باہر نکل آیا اور اس پر آگ نے بالکل اثر نہ کیا سمجھ لیا کہ یہی اسم اعظم ہے ۔ اپنے استاد کے پاس آئے اور کہا اسم اعظم کا علم مجھے ہو گیا استاد نے پوچھا بتاؤ کیا ہے ؟ اس نے بتایا راہب نے پوچھا کیسے معلوم ہوا تو اس نے سارا واقعہ کہہ سنایا فرمایا بھئی تم نے خوب معلوم کر لیا واقعی یہی اسم اعظم ہے ۔ اسے اپنے ہی تک رکھو لیکن مجھے تو ڈر ہے کہ تم کھل جاؤ گے ۔ ان کی یہ حالت ہوئی کہ یہ نجران میں آئے یہاں جس بیمار پر ، جس دکھی پر ، جس ستم رسیدہ پر نظر پڑی اس سے کہا کہ اگر تم موحد بن جاؤ اور دین اسلام قبول کر لو تو میں رب سے دعا کرتا ہوں وہ تمہیں شفاء اور نجات دیدے گا ، اور دکھ بلا کو ٹال دے گا ، وہ اسے قبول کر لیتا یہ اسم اعظم کے ساتھ دعا کرتے اللہ اسے بھلا چنگا کر دیتا اب تو نجرانیوں کے ٹھٹھ لگنے لگے اور جماعت کی جماعت روزانہ مشرف بہ اسلام اور فائزالمرام ہونے لگی۔ آخر بادشاہ کو اس کا علم ہوا اس نے اسے بلا کر دھمکایا کہ تو نے میری رعیت کو بگاڑ دیا اور میرے اور میرے باپ دادا کے مذہب پر حملہ کیا میں اس کی سزا میں تیرے ہاتھ پاؤں کاٹ کر تجھے چوراہے پر رکھوا دوں گا ۔ عبداللہ بن تامر نے جواب دیا کہ تو ایسا نہیں کر سکتا اب بادشاہ نے اسے پہاڑ پر سے گرا دیا لیکن وہ نیچے آ کر صحیح سلامت رہا جسم پر کہیں چوٹ بھی نہ آئی نجران کے ان طوفان خیز دریاؤں میں گرداب کی جگہ انہیں لا ڈالا جہاں سے کوئی بچ نہیں سکتا لیکن یہ وہاں سے بھی صحت و سلامتی کے ساتھ واپس آ گئے۔ غرض ہر طرح عاجز آ گیا تو پھر عبداللہ بن تامر نے فرمایا سن اے بادشاہ تو میرے قتل پر کبھی قادر نہ ہو گا یہاں تک کہ تو اس دین کو مان لے جسے میں مانتا ہوں اور ایک اللہ کی عبادت کرنے لگے اگر یہ کر لے گا تو پھر تو مجھے قتل کر سکتا ہے ، بادشاہ نے ایسا ہی کیا اس نے عبداللہ کا بتلایا ہوا کلمہ پڑھا اور مسلمان ہو کر جو لکڑی اس کے ہاتھ میں تھی اس سے عبداللہ کو مارا جس سے کچھ یونہی سے خراش آئی اور اسی سے وہ شہید ہو گئے اللہ ان سے خوش ہو اور اپنی خاص رحمتیں انہیں عنایت فرمائے ان کے ساتھ ہی بادشاہ بھی مر گیا۔ اس واقعہ نے لوگوں کے دلوں میں یہ بات پیوست کر دی کہ دین ان کا ہی سچا ہے چنانچہ نجران کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے اور عیسیٰ علیہ السلام کے سچے دین پر قائم ہو گئے اور وہی مذہب اس وقت برحق بھی تھا ۔ ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نبی بن کر دنیا میں آئے نہ تھے لیکن پھر ایک زمانہ کے بعد ان میں بدعتیں پیدا ہونے لگیں اور پھیل گئیں اور دین حق کا نور چھن گیا غرض نجران میں عیسائیت کے پھیلنے کا اصلی سبب یہ تھا ۔ اب ایک زمانہ کے بعد ذونواس یہودی نے اپنے لشکر سمیت ان نصرانیوں پر چڑھائی کی اور غالب آ گیا پھر ان سے کہا یا تو یہودیت قبول کر لو یا موت ، انہوں نے قتل ہونا منظور کیا اس نے خندقیں کھدوا کر آگ سے پر کر کے ان کو جلا دیا بعض کو قتل بھی کیا بعض کے ہاتھ پاؤں ناک کان کاٹ دئیے وغیرہ ۔ تقریباً بیس ہزار مسلمانوں کو سرکش نے قتل کیا اور اس کا ذکر آیت «قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ» ۱؎ (85-البروج:4) میں ہے ۔ ذونواس کا نام زرعہ تھا اس کی بادشاہت کے زمانہ میں اسے یوسف کہا جاتا تھا اس کے باپ کا نام بیان اسعد ابی کریب تھا جو تبع مشہور ہے جس نے مدینہ میں غزوہ کیا اور کعبہ کو پردہ چڑھایا اس کے ساتھ دو یہودی عالم تھے ، یمن والے ان کے ہاتھ پر یہودی مذہب میں داخل ہوئے ذونواس نے ایک ہی دن میں صرف صبح کے وقت ان کھائیوں میں بیس ہزار ایمان والوں کو قتل کیا ان میں سے صرف ایک ہی شخص بچ نکلا جس کا نام دوس ذی ثعلبان تھا یہ گھوڑے پر بھاگ کھڑا ہوا گو اس کے پیچھے بھی گھوڑے سوار دوڑائے لیکن یہ ہاتھ نہ لگا ، یہ سیدھا شاہ روم قیصر کے پاس گیا اس نے حبشہ کے بادشاہ نجاشی کو لکھا چنانچہ دوس وہاں سے حبشہ کے نصرانیوں کا لشکر لے کر یمن آیا اس کے سردار اریاط اور ابرہہ تھے یہودی مغلوب ہوئے یمن یہودیوں کے ہاتھ سے نکل گیا ۔ ذونواس بھاگ نکلا لیکن وہ پانی میں غرق ہو گیا پھر ستر سال تک یہاں حبشہ کے نصرانیوں کا قبضہ رہا بالاخر سیف بن ذی یزن حمیری نے فارس کے بادشاہ سے امدادی فوجیں اپنے ساتھ لیں اور سات سو قیدی لوگوں سے اس پر چڑھائی کر کے فتح حاصل کی اور پھر سلطنت حمیری قائم کی اس کا کچھ بیان سورۃ الفیل میں بھی آئے گا ، ان شاءاللہ تعالیٰ ۔ سیرۃ ابن اسحاق میں ہے کہ ایک نجرانی نے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں نجران کی ایک بنجر غیر آباد زمین اپنے کسی کام کے لیے کھودی تو دیکھا کہ عبداللہ بن تامر رحمہ اللہ کا جسم اس میں ہے آپ بیٹھے ہوئے ہیں سر پر جس جگہ چوٹ آئی تھی وہیں ہاتھ ہے ، ہاتھ اگر ہٹاتے ہیں تو خون بہنے لگتا ہے پھر ہاتھ کو چھوڑ دیتے ہیں تو ہاتھ اپنی جگہ چلا جاتا ہے ، اور خون تھم جاتا ہے ہاتھ کی انگلی میں انگوٹھی ہے جس پر «رَبِّیَ اللہُ» لکھا ہوا ہے یعنی میرا رب اللہ ہے ۔ چنانچہ اس واقعہ کی اطلاع قصر خلافت میں دی گئی ، یہاں سے سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا فرمان گیا کہ ” اسے یونہی رہنے دو اور اوپر سے مٹی وغیرہ جو ہٹائی ہے ، وہ ڈال کر جس طرح تھا اسی طرح بے نشان کر دو “ چنانچہ یہی کیا گیا ۔ ابن ابی الدنیا نے لکھا ہے کہ جب سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اصفہان فتح کیا تو ایک دیوار دیکھی کہ وہ گر پڑی ہے ان کے حکم پر وہ بنا دی گئی لیکن پھر گر پڑی پھر بنوائی پھر گر پڑی آخر معلوم ہوا کہ اس کے نیچے کوئی نیک بخت شخص مدفون ہیں جب زمین کھودی تو دیکھا کہ ایک شخص کا جسم کھڑا ہوا ہے ساتھ ہی ایک تلوار ہے جس پر لکھا ہے میں حارث بن مضاض ہوں میں نے کھائیوں والوں کا انتقام لیا ۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے اس لاشے کو نکال لیا اور وہاں دیوار کھڑی کرا دی جو برابر رہی ، میں کہتا ہوں یہ حارث بن مضاض بن عمرو جرہی ہے جو کعبۃ اللہ کے متولی ہوئے تھے ، ثابت بن اسمٰعیل بن ابراہیم کی اولاد کے بعد اس کا لڑکا عمرو بن حاث بن مضاض تھا جو مکہ میں جرہم خاندان کا آخری بادشاہ تھا ، جس وقت کہ خزاعہ قبیلے نے انہیں یہاں سے نکال اور یمن کی طرف جلا وطن کیا ۔ یہی وہ شخص ہے جس نے پہلے پہلے عرب میں شعر کہا جس شعر میں ویران مکہ کو اپنا آباد کرنا اور زمانہ کے ہیر پھیر اور انقلابات سے پھر وہاں سے نکالا جانا اس نے بیان کیا ۔ اس واقعہ سے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قصہ اسماعیل علیہ السلام کے کچھ زمانہ کے بعد کا اور بہت پرانا ہے جو کہ اسماعیل علیہ السلام کے تقریباً پانچ سو سال کے بعد کا معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن ابن اسحاق کی اس مطول روایت سے جو پہلے گزری ہے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ قصہ عیسیٰ علیہ السلام کے بعد کا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کا ہے زیادہ ٹھیک بھی یہی معلوم ہوتا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ واقعہ دنیا میں کئی بار ہوا ہو ، جیسے کہ ابن ابی حاتم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ عبد الرحمن بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ تبع کے زمانہ میں یمن میں خندقیں کھدوائی گئی تھیں اور قسطنطین کے زمانہ میں قسطنطنیہ میں بھی مسلمانوں کے یہی عذاب دیا گیا تھا ۔ جبکہ نصرانیوں نے اپنا قبلہ بدل دیا دین مسیح میں بدعتیں ایجاد کر لیں توحید کو چھوڑ بیٹھے اس وقت جو سچے دیندار تھے انہوں نے ان کا ساتھ نہ دیا اور اصلی دین پر قائم رہے تو ان ظالموں نے خندقیں آگ سے بھروا کر انہیں جلا دیا اور یہی واقعہ بابل کی زمین پر عراق میں بخت نصر کے زمانہ میں ہوا جس نے ایک بت بنا لیا تھا اور لوگوں سے اسے سجدہ کراتا تھا ، دانیال اور ان کے دونوں ساتھی عزریا اور مشایل نے اس سے انکار کر دیا تو اس نے انہیں اس آگ کی خندق میں ڈال دیا۔ اللہ تعالیٰ نے آگ کو ان پر ٹھنڈا کر دیا انہیں سلامتی عطا فرمائی صاف نجات دی اور اس سرکش کافروں کو ان خندقوں میں ڈال دیا یہ نو قبیلے تھے سب جل کر خاک ہو گئے ۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تین جگہ یہ معاملہ ہوا عراق میں شام میں اور یمن میں ۔ مقاتل رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ خندقیں تین جگہ تھیں ایک تو یمن کے شہر نجران میں ، دوسری شام میں ، تیسری فارس میں ۔ شام میں اس کا بانی انطنانوس رومی تھا اور فارس میں بخت نصر اور زمین عرب پر یوسف ذونواس ، فارس اور شام کی خندقیوں کا ذکر قرآن میں نہیں یہ ذکر نجران کا ہے ۔ ربیع بن انس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سنا ہے فترۃ کے زمانے میں یعنی عیسیٰ علیہ السلام اور پیغمبر آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان کے زمانہ میں ایک قوم تھی انہوں نے جب دیکھا کہ لوگ فتنے اور شر میں گرفتار ہو گئے ہیں اور گروہ گروہ بن گئے ہیں اور ہر گروہ اپنے خیالات میں خوش ہے تو ان لوگوں نے انہیں چھوڑ دیا یہاں سے ہجرت کر کے الگ ایک جگہ بنا کر وہیں رہنا سہنا شروع کیا اور اللہ کی مخلصانہ عبادت میں یکسوئی کے ساتھ مشغول ہو گئے نمازوں کی پابندی زکوٰتوں کی ادائیگی میں لگ گئے اور ان سے الگ تھلگ رہنے لگے یہاں تک کہ ایک سرکش بادشاہ کو اس اللہ والی جماعت کا پتہ لگ گیا اس نے ان کے پاس اپنے آدمی بھیجے اور انہیں سمجھایا کہ تم بھی ہمارے ساتھ مل جاؤ اور بت پرستی شروع کر دو ان سب نے بالکل انکار کیا کہ ہم سے یہ نہیں ہو سکتا کہ اللہ «وَحدَہُ لَا شَرِیکَ لَہُ» کے سوا کسی اور کی بندگی کریں ۔ بادشاہ نے کہلوایا کہ اگر یہ تمہیں منظور نہیں تو میں تمہیں قتل کرا دوں گا ، جواب ملا کہ جو چاہو کرو لیکن ہم سے دین نہیں چھوڑا جائے گا ، اس ظالم نے خندقیں کھدوائیں آگ جلوائی اور ان سب مرد و عورتوں اور بچوں کو جمع کر لیا اور ان خندقوں کے کنارے کھڑا کر کے کہا بولو یہ آخری سوال جواب ہے آیا بت پرستی قبول کرتے ہو یا آگ میں گرنا قبول کرتے ہو انہوں نے کہا ہمیں جل مرنا منظور ہے ، لیکن چھوٹے چھوٹے بچوں نے چیخ و پکار شروع کر دی بڑوں نے انہیں سمجھایا کہ بس آج کے بعد آگ نہیں ۔ نہ گھبراؤ اور اللہ کا نام لے کر کود پڑو چنانچہ سب کے سب کود پڑے انہیں آنچ بھی نہیں لگنے پائی تھی کہ اللہ نے ان کی روحیں قبض کر لیں اور آگ خندقوں سے باہر نکل پڑی اور ان بدکردار سرکشوں کو گھیر لیا اور جتنے بھی تھے سارے کے سارے جلا دئیے گئے ان کی خبر ان آیتوں «قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ» الخ میں ہے ۔ تو اس بنا پر «فَتَنُوا» کے معنی ہوئے کہ جلایا ۔ تو فرماتا ہے کہ ’ ان لوگوں نے مسلمان مردوں عورتوں کو جلا دیا ہے اگر انہوں نے توبہ نہ کی یعنی اپنے اس فعل سے باز نہ آئے ، نہ اپنے اس کئے پر نادم ہوئے تو ان کے لیے جہنم ہے اور جلنے کا عذاب ہے تاکہ بدلہ بھی ان کے عمل جیسا ہو ۔ ‘ حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ بزرگ و برتر کے کرم و رحم اس کی مہربانی اور عنایت کو دیکھو کہ جب بدکاروں نے اس کے پیارے بندوں کو ایسے بدترین عذابوں سے مارا انہیں بھی وہ توبہ کرنے کو کہتا ہے اور ان سے بھی مغفرت اور بخشش کا وعدہ کرتا ہے ۔ اللہ ہمیں بھی اپنے وسیع رحمتوں سے بھرپور حصہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔