سورة الانشقاق - آیت 1

إِذَا السَّمَاءُ انشَقَّتْ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

جب آسمان پھٹ جائے گا (١)

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

زمین مردے اگل دے گی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ قیامت کے دن آسمان پھٹ جائے گا وہ اپنے رب کے حکم پر کاربند ہونے کے لیے اپنے کان لگائے ہوئے ہو گا پھٹنے کا حکم پاتے ہی پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا۔ ‘ اسے بھی چاہیئے کہ امر اللہ بجا لائے اس لیے کہ یہ اس اللہ کا حکم ہے جسے کوئی روک نہیں سکتا جس سے بڑا اور کوئی نہیں جو سب پر غالب ہے اس پر غالب کوئی نہیں ، ہر چیز اس کے سامنے پست و لاچار ہے بےبس و مجبور ہے اور زمین پھیلا دی جائیگی بچھا دی جائیگی اور کشادہ کر دی جائیگی ۔ حدیث میں ہے { قیامت کے دن اللہ تعالیٰ زمین کو چمڑے کی طرح کھینچ لے گا یہاں تک کہ ہر انسان کو صرف دو قدم ٹکانے کی جگہ ملے گی سب سے پہلے مجھے بلایا جائے گا ، جبرائیل علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی دائیں جانب ہوں گے اللہ کی قسم اس سے پہلے اس نے کبھی اسے نہیں دیکھا تو میں کہوں گا ، اے اللہ ! جبرائیل نے مجھ سے کہا تھا کہ یہ تیرے بھیجے ہوئے میرے پاس آتے ہیں اللہ فرمائے گا سچ کہا تو میں کہوں گا اللہ پھر مجھے شفاعت کی اجازت ہو چنانچہ مقام محمود میں کھڑا ہو کر میں شفاعت کروں گا اور کہوں گا کہ اللہ تیرے ان بندوں نے زمین کے گوشتے گوشتے پر تیری عبادت کی ہے۔ } ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:36725:مرسل) پھر فرماتا ہے کہ ’ زمین اپنے اندر کے کل مردے اگل دے گی اور خالی ہو جائے گی یہ بھی رب کے فرمان کی منتظر ہو گی اور اسے بھی یہی لائق ہے۔ ‘ پھر ارشاد ہوتا ہے کہ ’ اے انسان تو کوشش کرتا رہے گا اور اپنے رب کی طرف آگے بڑھتا رہے گا ، اعمال کرتا رہے گا یہاں تک کہ ایک دن اس سے مل جائے گا اور اس کے سامنے کھڑا ہو گا اور اپنے اعمال اور اپنی سعی و کوشش کو اپنے سامنے دیکھ لے گا۔ ‘ ابوداؤد طیالسی میں ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا : اے محمد [ صلی اللہ علیہ وسلم ] جی لے جب تک چاہے بالآخر موت آنے والی ہے جس سے چاہ و دل بستگی پیدا کر لے ایک دن اس سے جدائی ہونی ہے جو چاہے عمل کر لے ایک دن اس کی ملاقات ہونے والی ہے ۔ ۱؎ (مسند طیالسی:1755:حسن) «مُلَاقِیہِ» کی ضمیر کا مرجع بعض نے لفظ رب کو بھی بتایا ہے تو معنی یہ ہوں گے کہ اللہ سے تیری ملاقات ہونے والی ہے وہ تجھے تیرے کل اعمال کا بدلہ دے گا اور تیری تمام کوشش و سعی کا پھل تجھے عطا فرمائے گا دونوں ہی باتیں آپس میں ایک دوسری کو لازم و ملزوم ہیں۔ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ” اے ابن آدم تو کوشش کرنے والا ہے لیکن اپنی کوشش میں کمزور ہے جس سے یہ ہو سکے کہ اپنی تمام تر سعی و کوشش نیکیوں کی کرے تو وہ کر لے دراصل نیکی کی قدرت اور برائیوں سے بچنے کی طاقت بجز امداد الٰہی حاصل نہیں ہو سکتی ۔“