وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا
اور جو مسلمان کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے، تو (یاد رکھو) اس کی سزا جہنم ہے جہاں وہ ہمیشہ رہے گا، اور اس پر اللہ کا غضب ہوا اور اس کی پھٹکار پڑی، اور اس کے لیے خدا نے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے
. سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تو قول ہے کہ جس نے مومن کو قصداً قتل کیا اس کی توبہ قبول ہی نہیں ، اہل کوفہ جب اس مسئلہ میں اختلاف کرتے ہیں تو ابن جیبر رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آ کر دریافت کرتے ہیں آپ فرماتے ہیں یہ آخری آیت ہے جسے کسی آیت نے منسوخ نہیں کیا ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4590) اور آپ فرماتے ہیں کہ دوسری آیت « وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ۚ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا» ۱؎ (25-الفرقان:68) جس میں تو یہ ذکر ہے کہ وہ اہل شرک کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ پس جبکہ کسی شخص نے اسلام کی حالت میں کسی مسلمان کو غیر شرعی وجہ سے قتل کیا اس کی سزا جہنم ہے اور اس کی توبہ قبول نہیں ہو گی ، مجاہد رحمہ اللہ سے جب یہ قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان ہوا تو فرمانے لگے مگر جو نادم ہو ۔ سالم بن ابوالجعد فرماتے ہیں ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما جب نابینا ہو گئے تھے ایک مرتبہ ہم ان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے جو ایک شخص آیا اور آپ کو آواز دے کر پوچھا کہ اس کے بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں جس نے کسی مومن کو جان بوجھ کر مار ڈالا آپ نے فرمایا اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اللہ کا اس پر غضب ہے اس پر اللہ کی لعنت ہے اور اس کے لیے عذاب عظیم تیار ہے ۔ اس نے پھر پوچھا اگر وہ توبہ کرے نیک عمل کرے اور ہدایت پر جم جائے تو ؟ فرمانے لگے اس کی ماں اسے روئے اسے توبہ اور ہدایت کہاں ؟ اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میرا نفس ہے میں نے تمہارے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اس کی ماں اسے روئے جس نے مومن کو جان بوجھ مار ڈالا ہے وہ قیامت کے دن اسے دائیں یا بائیں ہاتھ سے تھامے ہوئے رحمن کے عرش کے سامنے آئے گا اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہو گا اور اللہ سے کہے گا کہ اے اللہ اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ } اس اللہ عظیم کی قسم جس کے ہاتھ میں عبداللہ کی جان ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک اسے منسوخ کرنے والی کوئی آیت نہیں اتری ۔۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10193:صحیح بالشواھد) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی وحی اترے گی ۔ ۱؎ (سنن نسائی:4010،قال الشیخ الألبانی:صحیح) سیدنا زید بن ثابت ، سیدنا ابوہریرہ ، سیدنا عبداللہ بن عمر ، رضی اللہ عنہم ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن ، عبید بن عمیر ، حسن ، قتادہ ، ضحاک رحمہ اللہ علیہم بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا کے خیال کے ساتھ ہیں ۔ ابن مردویہ میں ہے کہ { مقتول اپنے قاتل کو پکڑ کر قیامت کے دن اللہ کے سامنے لائے گا دوسرے ہاتھ سے اپنا سر اٹھائے ہوئے ہو گا اور کہے گا میرے رب اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا ؟ قاتل کہے گا پروردگار اس لیے کہ تیری عزت ہو اللہ فرمائے گا پس یہ میری راہ میں ہے ۔ دوسرا مقتول بھی اپنے قاتل کو پکڑے ہوئے لائے گا اور یہی کہے گا ، قاتل جواباً کہے گا اس لیے کہ فلاں کی عزت ہو اللہ فرمائے گا قاتل کا گناہ اس نے اپنے سر لے لیا پھر اسے آگ میں جھونک دیا جائے گا جس گڑھے میں ستر سال تک تو نیچے چلا جائے گا ۔ } ۱؎ (سنن نسائی:3989،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے ’ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہ بخش دے ، لیکن ایک تو وہ شخص جو کفر کی حالت میں مرا دوسرا وہ جو کسی مومن کا قصداً قاتل بنا ۔ ‘ ۱؎ (مسند احمد:99/4:صحیح) ابن مردویہ میں بھی ایسی ہی حدیث ہے اور وہ بالکل غریب ہے ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4270:صحیح) محفوظ وہ حدیث ہے جو بحوالہ مسند بیان ہوئی ۔ ابن مردویہ میں اور حدیث ہے کہ ’ جان بوجھ کر ایماندار کو مار ڈالنے والا کافر ہے ۔ ‘ ۱؎ (ابن عدی فی الکامل:1059/3:ضعیف) یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے ۔ حمید کہتے ہیں میرے پاس ابوالعالیہ آئے میرے دوست بھی اس وقت میرے پاس تھے ہم سے کہنے لگے تم دونوں مجھ سے کم عمر اور زیادہ یادداشت والے ہو آؤ میرے ساتھ بشر بن عاصم رحمہ اللہ کے پاس چلو جب وہاں پہنچے تو بشر رحمہ اللہ سے فرمایا انہیں بھی وہ حدیث سنا دو انہوں نے سنانی شروع کی کہ سیدنا عتبہ بن مالک لیثی رضی اللہ عنہ نے کہا { رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر بھیجا تھا اس نے ایک قوم پر چھاپہ مارا وہ لوگ بھاگ کھڑے ہوئے ان کے ساتھ ایک شخص بھاگا جا رہا تھا اس کے پیچھے ایک لشکری بھاگا جب اس کے قریب ننگی تلوار لیے ہوئے پہنچ گیا تو اس نے کہا میں تو مسلمان ہوں ۔ اس نے کچھ خیال نہ کیا تلوار چلا دی ۔ اس واقعہ کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ بہت ناراض ہوئے اور سخت سست کہا یہ خبر اس شخص کو بھی پہنچی ۔ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے کہ اس قاتل نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اس نے تو یہ بات محض قتل سے بچنے کے لیے کہی تھی آپ نے اس کی طرف سے نگاہ پھیرلی اور خطبہ سناتے رہے ۔ اس نے دوبارہ کہا آپ نے پھر منہ موڑ لیا ، اس سے صبر نہ ہو سکا ، تیسری باری کہا تو آپ نے اس کی طرف توجہ کی اور ناراضگی آپ کے چہرے سے ٹپک رہی تھی ، فرمانے لگے ’ مومن کے قاتل کی کوئی بھی معذرت قبول کرنے سے اللہ تعالیٰ انکار کرتے ہیں تین بار یہی فرمایا . } یہ روایت نسائی میں بھی ہے ۔ ۱؎ (مسند احمد:289/5:صحیح) پس ایک مذہب تو یہ ہوا کہ قاتل مومن کی توبہ نہیں دوسرا مذہب یہ کے کہ توبہ اس کے اور اللہ کے درمیان ہے جمہور سلف وخلف کا یہی مذہب ہے کہ اگر اس نے توبہ کی اللہ کی طرف رجوع کیا خشوع خضوع میں لگا رہا نیک اعمال کرنے لگ گیا تو اللہ اس کی توبہ قبول کر لے گا اور مقتول کو اپنے پاس سے عوض دے کر اسے راضی کر لے گا ۔ اللہ فرماتا ہے «اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا» ۱؎ (19-مریم:60) اور «إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا » ۱؎ (25-الفرقان:70) یہ خبر ہے اور خبر میں نسخ کا احتمال نہیں اور اس آیت کو مشرکوں کے بارے میں اور اس آیت کو مومنوں کے بارے میں خاص کرنا بظاہر خلاف قیاس ہے اور کسی صاف دلیل کا محتاج ہے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے « قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ ۭ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذٰنُوْبَ جَمِیْعًا ۭ اِنَّہٗ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ» ۱؎ (39-الزمر:53) ’ اے میرے وہ بندو جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم میری رحمت سے مایوس نہ ہو ۔ ‘ یہ آیت اپنے عموم کے اعتبار سے ہر گناہ پر محیط ہے خواہ کفر و شرک ہو خواہ شک و نفاق ہو خواہ قتل وفسق ہو خواہ کچھ ہی ہو ، جو اللہ کی طرف رجوع کرے اللہ اس کی طرف مائل ہو گا جو توبہ کرے اللہ اسے معاف فرمائے گا ۔ فرماتا ہے «إِنَّ اللہَ لَا یَغْفِرُ أَن یُشْرَکَ بِہِ وَیَغْفِرُ مَا دُونَ ذٰلِکَ لِمَن یَشَاءُ » ۱؎ (4-النساء:48) ’ اللہ تعالیٰ شرک کو بخشتا نہیں اس کے سوا کے تمام گناہ جسے چاہے بخش دے ۔ ‘ اللہ اس کی کریمی کے صدقے جائیے کہ اس نے اسی سورت میں اس آیت سے پہلے بھی جس کی تفسیر اب ہم کر رہے ہیں اپنی عام بخشش کی آیت بیان فرمائی اور پھر اس آیت کے بعد ہی اسے دوہرا دیا اسی طرح اپنی عام بخشش کا اعلان پھر کیا تاکہ بندوں کو اس کی کامل فطرت سے کامل امید بند جائے «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ بخاری مسلم کی وہ حدیث بھی اس موقعہ پر یاد رکھنے کے قابل ہے جس میں ہے کہ ’ ایک بنی اسرائیلی نے ایک سو قتل کئے تھے ۔ پھر ایک عالم سے پوچھتا ہے کہ کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ تجھ میں اور تیری توبہ میں کون ہے جو حائل ہے ؟ جاؤ اس بدبستی کو چھوڑ کر نیکوں کے شہر میں بسو چنانچہ اس نے ہجرت کی مگر راستے میں ہی فوت ہو گیا اور رحمت کے فرشتے اسے لے گئے ۔ ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:3470) یہ حدیث پوری پوری کئی مرتبہ بیان ہو چکی ہے جبکہ بنی اسرائیل میں یہ ہے تو اس امت مرحومہ کے لیے قاتل کی توبہ کے لیے دروازے بند کیوں ہوں ؟ ہم پر تو پہلے بہت زیادہ پابندیاں تھیں جن سب سے اللہ نے ہمیں آزاد کر دیا اور رحمتہ اللعالمین جیسے سردار انبیاء کو بھیج کر وہ دین ہمیں دیا جو آسانیوں اور راحتوں والا سیدھا صاف اور واضح ہے ، لیکن یہاں جو سزا قاتل کی بیان فرمائی ہے اس سے مرادیہ ہے کہ اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سزا ضرور دی جائے ۔ چنانچہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اور سلف کی ایک جماعت بھی یہی فرماتی ہے ، بلکہ اس معنی کی ایک حدیث بھی ابن مردویہ میں ہے ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:5819/3:ضعیف) لیکن سنداً وہ صحیح نہیں اور اسی طرح ہر وعید کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی عمل صالح وغیرہ اس کے مقابل میں نہیں تو اس بدی کا بدلہ وہ ہے جو وعید میں واضح بیان ہوا ہے اور یہی طریقہ وعید کے بارے میں ہمارے نزدیک نہایت درست اور احتیاط والا ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ بِالصّوَابٗ» اور قاتل کا مقدر جہنم بن گیا ۔ چاہے اس کی وجہ توبہ کی عدم قبولیت کہا جائے یا اس کے متبادل کسی نیک عمل کا مفقود ہونا خواہ بقول جمہور دوسرا نیک عمل نجات دہندہ نہ ہونے کی وجہ سے ہو ۔ وہ ہمیشہ جہنم میں نہ رہے گا بلکہ یہاں خلود سے مراد بہت دیر تک رہنا ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ ’ جہنم میں سے وہ بھی نکل آئیں گے جن کے دل میں رائی کے چھوٹے سے چھوٹے دانے کے برابر بھی ایمان ہو گا ۔ ‘ اوپر جو ایک حدیث بیان ہوئی ہے کہ ممکن ہے اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بجز کفر اور قتل مومن کے معاف فرما دے ۔ اس میں «عسی» ترجی کا مسئلہ ہے ان دونوں صورتوں میں ترجی یعنی اُمید گو اٹھ جائے پھر بھی وقوع پذیر ہونا یعنی ایسا ہونا ان دونوں میں سے ایک بھی ممکن نہیں اور وہ قتل ہے ، کیونکہ شرک و کفر کا معاف نہ ہونا تو الفاظ قرآن سے ثابت ہو چکا اور جو حدیثیں گذریں جن میں قاتل کو مقتول لے کر آئے گا وہ بالکل ٹھیک ہیں چونکہ اس میں انسانی حق ہے وہ توبہ سے ٹل نہیں جاتا ۔ بلکہ انسانی حق تو توبہ ہونے کی صورت میں بھی حقدار کو پہنچانا ضروری ہے اس میں جس طرح قتل ہے اسی طرح چوری ہے غضب ہے تہمت ہے اور دوسرے حقوق انسانی ہیں جن کا توبہ سے معاف نہ ہونا اجماعاً ثابت ہے بلکہ توبہ کے لیے صحت کی شرط ہے کہ ان حقوق کو ادا کرے ۔ اور جب ادائیگی محال ہے تو قیامت کے روز اس کا مطالبہ ضروری ہے ۔ لیکن مطالبہ سے سزا کا واقع ہونا ضروری نہیں ۔ ممکن ہے کہ قاتل کے اور سب اعمال صالحہ مقتول کو دے دئیے جائیں یا بعض دے دئیے جائیں اور اس کے پاس پھر بھی کچھ رہ جائیں اور یہ بخش دیا جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ قاتل کا مطالبہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و کرم سے اپنے پاس سے اور اپنی طرف سے حور و قصور اور بلند درجات جنت دے کر پورا کر دے اور اس کے عوض وہ اپنے قاتل سے درگذر کرنے پر خوش ہو جائے ۔ اور قاتل کو اللہ تعالیٰ بخش دے وغیرہ ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» ۔ جان بوجھ کر مارا ڈالنے والے کے لیے کچھ تو دنیوی احکام ہیں اور کچھ اخروی ۔ دنیا میں تو اللہ نے مقتول کے ولیوں کو اس پر غلبہ دیا ہے ۔ فرماتا ہے«وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَانًا فَلَا یُسْرِف فِّی الْقَتْلِ» ۱؎ (17-الإسراء:33) ’ جو ظلم سے قتل کیا جائے ہم نے اس کے پیچھے والوں کو غلبہ دیا ہے کہ انہیں اختیار ہے کہ یا تو وہ بدلہ لیں یعنی قاتل کو بھی قتل کرائیں یا معاف کر دیں یا دیت یعنی خون بہا یعنی جرمانہ وصول کر لیں ‘ اور اس کے جرمانہ میں سختی ہے جو تین قسموں پر مشتمل ہے ۔ تیس تو چوتھے سال کی عمر میں لگے ہوئے اونٹ ، تیس پانچویں سال میں لگے ہوئے ، چالیس حاملہ اونٹنیاں جیسے کہ کتب احکام میں ثابت ہیں ۔ اس میں ائمہ نے اختلاف کیا ہے کہ اس پر غلام کا آزاد کرنا یا دو ماہ کے پے در پے روزے رکھے یا کھانا کھلانا ہے یا نہیں ؟ پس امام شافعی رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب اور علماء کی ایک جماعت تو اس کی قائل ہے کہ جب خطا میں یہ حکم ہے تو عمداً میں بطور ادنیٰ یہی حکم ہونا چاہیئے اور ان پر جواباً جھوٹی غیر شرعی قسم کے کفارے کو پیش کیا گیا ہے اور انہوں نے اس کا عذر عمداً چھوڑ دی ہوئی دی نماز کو قضاء قرار دیا ہے جیسے کہ اس پر اجماع ہے خطا میں ۔ امام احمد رحمہ اللہ کے اصحاب اور دوسرے کہتے ہیں قتل عمداً ناقابل کفارہ ہے ۔ اس لیے اس یعنی کفارہ نہیں اور اسی طرح جھوٹی قسم اور ان کے لیے ان دونوں صورتوں میں اور عمداً چھوٹی ہوئی نماز میں فرق کرنے کی کوئی راہ نہیں ، اسلئے کہ یہ عمداً چھوٹی ہوئی نماز کی قضا کے وجوب کے قائل ہیں ۔ سابقہ مکتبہ خیال کی ایک دلیل یہ حدیث بھی ہے جو مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ سیدنا واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کوئی ایسی حدیث سناؤ جس میں کمی زیادتی نہ ہو تو وہ بہت ناراض ہوئے اور فرمانے لگے کیا تم قرآن لے کر پڑھتے ہو تو اس میں کمی زیادتی بھی کرتے ہو ؟ انہوں نے کہا ہمارا مطلب یہ ہے کہ خود رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے جو سنی ہو کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنوں میں سے ایک آدمی کی بابت حاضر ہوئے جس نے بوجہ قتل کے اپنے تئیں جہنمی بنا لیا تھا ۔ { تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کی طرف سے ایک غلام آزاد کرو اس کے ایک ایک عضو کے بدلہ اس کا ایک ایک عضو اللہ تعالیٰ جہنم سے آزاد کر دے گا ۔ } ۱؎ (مسند احمد:107/4:ضعیف)