وَإِذَا حُيِّيتُم بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْهَا أَوْ رُدُّوهَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ حَسِيبًا
اور (مسلمانو) جب کبھی تمہیں دعا دے کر سلام کیا جائے تو چاہیے کہ جو کچھ سلام و دعا میں کہا گیا ہے اس سے زیادہ اچھی بات جواب میں کہو یا (کم از کم) جو کچھ کہا گیا ہے اسی کو لوٹا دو بلاشبہ اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے (تمہاری کوئی چھوٹی سے چھوتی بات بھی اس کے محاسبہ سے چھوٹ نہیں سکتی)
سلام کہنے والے کو اس سے بہتر جواب دو مسلمانو ! جب تمہیں کوئی مسلمان سلام کرے تو اس کے سلام کے الفاظ سے بہتر الفاظ سے اس کا جواب دو ، یا کم سے کم انہی الفاظ کو دوہرا دو پس زیادتی مستحب ہے اور برابری فرض ہے ، ابن جریر میں ہے ’ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا «السلام علیکم یا رسول اللہ» آپ نے فرمایا «وعلیک السلام ورحمتہ اللہ» پھر دوسرا آیا اس نے کہا «السلام علیک یا رسول اللہ و رحمتہ اللہ» آپ نے جواب دیا «وعلیک السلام و رحمتہ اللہ وبرکاتہ» پھر ایک صاھب آئے انہوں نے کہا «السلام علیک و رحمتہ اللہ وبرکاتہ» آپ نے جواب میں فرمایا «وعلیک» تو اس نے کہا اے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فلاں اور فلاں نے آپ کو سلام کیا تو آپ نے جواب دیا اور کچھ زیادہ دعائیہ الفاظ کے ساتھ دیا ۔ جو مجھے نہیں دیا آپ نے فرمایا تم نے ہمارے لیے کچھ باقی ہی نہ چھوڑا اللہ کا فرمان ہے جب تم پر سلام کیا جائے تو تم اس سے اچھا جواب دو یا اسی کو لوٹا دو اس لیے ہم نے وہی الفاظ لوٹا دئیے ۔‘ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:10050:ضعیف) یہ روایت ابن ابی حاتم میں بھی اسی طرح مروی ہے ، اسے ابوبکر مردویہ نے بھی روایت کیا مگر میں نے اسے مسند میں نہیں دیکھا «وَاللہُ اَعْلَمُ» اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سلام کے کلمات میں اس سے زیادتی نہیں ، اگر ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری صحابی کے جواب میں وہ لفظ کہہ دیتے ۔ مسند احمد میں ہے کہ ’ ایک شخص حضور کے پاس آئے اور «السلام علیکم یا رسول اللہ» کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے جواب دیا اور فرمایا دس نیکیاں ملیں ، دوسرے آئے اور «السلام علیکم ورحمتہ اللہ یا رسول اللہ» کہہ کر بیٹھ گئے آپ نے فرمایا بیس نیکیاں ملیں ، پھر تیسرے صاحب آئے انہوں نے کہا «السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ» آپ نے فرمایا تیس نیکیاں ملیں ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:2689،قال الشیخ الألبانی:صحیح) امام ترمذی رحمہ اللہ اسے حسن غریب بتاتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کو عام لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ خلق اللہ میں سے جو کوئی سلام کرے گا اسے جواب دو گو وہ مجوسی ہو ، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں سلام کا اس سے بہتر جواب دینا تو مسمانوں کے لیے ہے اور اسی کو لوٹا دینا اہل ذمہ کے لیے ہے ، لیکن اس تفسیر میں ذرا اختلاف ہے جیسے کہ اوپر کی حدیث میں گزر چکا ہے مراد یہ ہے کہ اس کے سلام سے اچھا جواب دیں اور اگر مسلمان سلام کے سبھی الفاظ کہہ دے تو پھر جواب دینے والا انہی کو لوٹادے ۔ ذمی لوگوں کو خود سلام کی ابتداء کرنا تو ٹھیک نہیں اور وہ خود کریں تو جواب میں اتنے ہی الفاظ کہدے ، بخاری و مسلم میں ہے ’ جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرے تو خیال رکھو یہ کہہ دیتے ہیں «السام علیک» تو تم کہہ دو و «علیک» ‘ ۱؎ (صحیح بخاری:6257) صحیح مسلم میں ہے ’ یہود و نصاری کو تم پہلے سلام نہ کرو اور جب راستے میں مڈبھیڑ ہو جائے تو انہیں تنگی کی طرف مضطر کر ‘ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:2167) امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں سلام نفل ہے اور جواب سلام فرض ہے اور علماء کرام کا فرمان بھی یہی ہے ، پس اگر جواب نہ دے گا تو گنہگار ہو گا اس لیے کہ جواب سلام کا اللہ کا حکم ہے ۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنی توحید بیان فرماتا ہے اور الوہیت اور اپنا یکتا ہونا ظاہر کرتا ہے اور اس میں ضمنی مضامین بھی ہیں ، اسی لیے دوسرے جملے کو لام سے شروع کیا جو قسم کے جواب میں آتا ہے ، تو اگلا جملہ خبر ہے اور قسم بھی ہے کہ وہ عنقریب تمام مقدم و مؤخر کو میدان محشر میں جمع کرے گا اور وہاں ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دے گا ، اس اللہ السمیع البصیر سے زیادہ سچی بات والا اور کوئی نہیں ، اس کی خبر اس کا وعدہ اس کی وعید سب سچ ہے ، وہی معبود برحق ہے ، اس کے سوا کوئی مربی نہیں ۔