وَمَا جَعَلْنَا أَصْحَابَ النَّارِ إِلَّا مَلَائِكَةً ۙ وَمَا جَعَلْنَا عِدَّتَهُمْ إِلَّا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا لِيَسْتَيْقِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَيَزْدَادَ الَّذِينَ آمَنُوا إِيمَانًا ۙ وَلَا يَرْتَابَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْمُؤْمِنُونَ ۙ وَلِيَقُولَ الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ وَالْكَافِرُونَ مَاذَا أَرَادَ اللَّهُ بِهَٰذَا مَثَلًا ۚ كَذَٰلِكَ يُضِلُّ اللَّهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَمَا يَعْلَمُ جُنُودَ رَبِّكَ إِلَّا هُوَ ۚ وَمَا هِيَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْبَشَرِ
اور ہم نے دوزخ کے داروغے فرشتے ہی بنائے ہیں اور ان کی تعداد (انیس) کا کافروں کے لیے فتنہ بنادیا ہے تاکہ اہل کتاب کو یقین آجائے اور ایمان والوں کا ایمان بڑھ جائے، اور اہل کتاب اور مومنین کو (قرآن مجید کی صداقت میں) کسی قسم کا شبہ نہ رہے اور جن کے دلوں میں (نفاق کا) مرض ہے اور کفاریہ کہیں کہ ایسی باتوں کے بیان کرنے سے اللہ کو کیا غرض ہے؟ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت بخش دیتا ہے اور تمہارا پروردگار اس کاراز ہستی کی کارفرمائیوں کے لیے) جوفوجیں رکھتا ہے، ان کا حال اس کے سوا کون جانتا ہے؟ اور یہ (دوزخ کا ذکر) تو صرفنصیحت کے لیے ہے
سخت دل بےرحم فرشتے اور ابو جہل اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ عذاب دینے پر اور جہنم کی نگہبانی پر ہم نے فرشتے ہی مقرر کئے ہیں جو سخت بے رحم اور سخت کلامی کرنے والے ہیں ‘ ۔ اس میں مشرکین قریش کی تردید ہے انہیں جس وقت جہنم کے داروغوں کی گنتی بتلائی گئی تو ابوجہل نے کہا : اے قریشیوں یہ اگر انیس ہیں تو زیادہ سے زیادہ ایک سو نوے ہم مل کر انہی ہرا دیں گے اس پر کہا جاتا ہے کہ ’ وہ فرشتے ہیں انسان نہیں انہیں نہ تم ہرا سکو ، نہ تھکا سکو ‘ ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ابو الاشدین جس کا نام کلدہ بن اسید بن خلف تھا اس نے اس گنتی کو سن کر کہا کہ قریشیو ! تم سب مل کر ان میں سے دو کو روک لینا باقی سترہ کو میں کافی ہوں ، یہ بڑا مغرور شخص تھا اور ساتھ ہی بڑا قوی تھا یہ گائے کے چمڑے پر کھڑا ہو جاتا پھر دس طاقتور شخص مل کر اسے اس کے پیروں تلے سے نکالنا چاہتے کھال کے ٹکڑے اڑ جاتے لیکن اس کے قدم جنبش بھی نہ کھاتے ۔ یہی شخص ہے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ کر کہا تھا کہ آپ مجھ سے کشتی لڑیں اگر آپ نے مجھے گرا دیا تو میں آپ کی نبوت کو مان لوں گا ، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کشتی کی اور کئی بار گرایا لیکن اسے ایمان لانا نصیب نہ ہوا ۔ امام ابن اسحاق رحمہ اللہ نے کشتی والا واقعہ رکانہ بن عبد یزید بن ہاشم بن عبدالمطلب کا بتایا ہے ، میں کہتا ہوں ان دونوں میں کچھ تفاوت نہیں [ ممکن ہے اس سے اور اس سے دونوں سے کشتی ہوئی ہو] ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» پھر فرمایا کہ ’ اس گنتی کا ذکر تھا ہی امتحان کے لیے ‘ ، ایک طرف کافروں کا کفر کھل گیا ، دوسری جانب اہل کتاب کا یقین کامل ہو گیا ، کہ اس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت حق ہے کیونکہ خود ان کی کتاب میں بھی یہی گنتی ہے ، تیسری طرف ایماندار اپنے ایمان میں مزید توانا ہو گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کی تصدیق کی اور ایمان بڑھایا ، اہل کتاب اور مسلمانوں کو کوئی شک شبہ نہ رہا بیمار دل اور منافق چیخ اٹھے کہ بھلا بتاؤ کہ اسے یہاں ذکر کرنے میں کیا حکمت ہے ؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’ ایسی ہی باتیں بہت سے لوگوں کے ایمان کی مضبوطی کا سبب بن جاتی ہے اور بہت سے لوگوں کے شبہ والے دل اور ڈانوا ڈول ہو جاتے ہیں اللہ کے یہ سب کام حکمت سے اور اسرار سے پر ہیں ، تیرے رب کے لشکروں کی گنتی اور ان کی صحیح تعداد اور ان کی کثرت کا کسی کو علم نہیں وہی خوب جانتا ہے ‘ ۔ یہ نہ سمجھ لینا کہ بس انیس ہی ہیں ، جیسے یونانی فلسفیوں اور ان کے ہم خیال لوگوں نے اپنی جہالت و ضلالت کی وجہ سے سمجھ لیا کہ اس سے مراد «الْعُقُولِ الْعَشَرَۃِ» اور «النٰفُوسِ التِّسْعَۃِ» ہیں حالانکہ یہ مجرد ان کا دعویٰ ہے جس پر دلیل قائم کرنے سے وہ بالکل عاجز ہیں ۔ افسوس کہ آیت کے اول پر تو ان کی نظریں ہیں لیکن آخری حصہ کے ساتھ وہ کفر کر رہے ہیں جہاں صاف الفاظ موجود ہیں کہ ’ تیرے رب کے لشکروں کو اس کے سوا کوئی نہیں جانتا پھر صرف انیس کے کیا معنی ؟ ‘ بخاری و مسلم کی معراج والی حدیث میں ثابت ہو چکا ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المعمور کا وصف بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ساتویں آسمان پر ہے اور اس میں ہر روز ستر ہزار فرشتے جاتے ہیں اسی طرح دوسرے روز دوسرے ستر ہزار فرشتے اسی طرح ہمیشہ تک لیکن فرشتوں کی تعداد اس قدر کثیر ہے کہ جو آج گئے ان کی باری پھر قیامت تک نہیں آنے کی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3207) مسند احمد میں ہے { رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ” میں وہ دیکھتا ہوں جو تم نہیں دیکھتے اور وہ سنتا ہوں جو تم نہیں سنتے آسمان چرچرا رہے ہیں اور انہیں چرچرانے کا حق ہے ۔ ایک انگلی ٹکانے کی جگہ ایسی خالی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ سجدے میں نہ پڑا ہو ۔ اگر تم وہ جان لیتے جو میں جانتا ہوں تم بہت کم ہنستے ، بہت زیادہ روتے اور بستروں پر اپنی بیویوں کے ساتھ لذت نہ پا سکتے بلکہ فریاد و زاری کرتے ہوئے جنگلوں کی طرف نکل کھڑے ہوتے } ۔ اس حدیث کو بیان فرما کر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ یہ نکل جاتا کاش ! کہ میں کوئی درخت ہوتا جو کاٹ دیا جاتا ، یہ حدیث ترمذی اور ابن ماجہ میں بھی ہے ـ ۱؎ (سنن ترمذی:2312،قال الشیخ الألبانی:حسن) اور امام ترمذی اسے حسن غریب بتاتے ہیں اور سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی روایت کی گئی ہے ۔ طبرانی میں ہے { ساتوں آسمانوں میں قدم رکھنے کی بالشت بھر یا ہتھیلی جتنی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں کوئی نہ کوئی فرشتہ قیام کی یا رکوع کی یا سجدے کی حالت میں نہ ہو پھر بھی یہ سب کل قیامت کے دن کہیں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہمیں جس قدر تیری عبادت کرنی چاہیئے تھی اس قدر ہم سے ادا نہیں ہو سکتی ، البتہ ہم نے تیرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا } ۱؎ (طبرانی اوسط:3592:ضعیف) امام محمد بن نصر مروزی رحمہ اللہ کی کتاب الصلوۃ میں ہے کہ { حضور علیہ السلام نے ایک مرتبہ صحابہ رضی اللہ عنہم سے سوال کیا : ” کیا جو میں سن رہا ہوں تم بھی سن رہے ہو ؟ “ انہوں نے جواب میں کہا : یا رسول اللہ ! ہمیں تو کچھ سنائی نہیں دیتا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” آسمانوں کا چرچر بولنا میں سن رہا ہوں اور وہ اس چرچراہٹ پر ملامت نہیں کیا جا سکتا کیونکہ اس پر اس قدر فرشتے ہیں کہ ایک بالشت بھر جگہ خالی نہیں کہیں کوئی رکوع میں ہے اور کہیں کوئی سجدے میں “ } ۔ ۱؎ (سلسلۃ احادیث صحیحہ البانی:1060:صحیح) دوسری روایت میں ہے { آسمان دنیا میں ایک قدم رکھنے کی جگہ بھی ایسی نہیں جہاں سجدے میں یا قیام میں کوئی فرشتہ نہ ہو ، اسی لیے فرشتوں کا یہ قول قرآن کریم میں موجود ہے «وَمَا مِنَّا إِلَّا لَہُ مَقَامٌ مَّعْلُومٌ وَإِنَّا لَنَحْنُ الصَّافٰونَ وَإِنَّا لَنَحْنُ الْمُسَبِّحُونَ» ۱؎ (37-الصافات:166-164) یعنی ’ ہم میں سے ہر ایک کے لیے مقرر جگہ ہے اور ہم صفیں باندھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے والے ہیں ‘ } ۔ اس حدیث کا مرفوع ہونا بہت ہی غریب ہے ، دوسری روایت میں یہ قول سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان کیا گیا ہے ، ایک اور سند سے یہ روایت سیدنا ابن علاء بن سعد رضی اللہ عنہ سے بھی مرفوعاً مروی ہے یہ صحابی فتح مکہ میں اور اس کے بعد کے جہادوں میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے ، لیکن سنداً یہ بھی غریب ہے ۔ ایک اور بہت ہی غریب بلکہ سخت منکر حدیث میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ آئے نماز کھڑی ہوئی تھی اور تین شخص بیٹھے ہوئے تھے جن میں کا ایک ابوحجش لیثی تھا آپ نے فرمایا اٹھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شامل ہو جاؤ تو دو شخص تو کھڑے ہو گئے لیکن ابوجحش کہنے لگا اگر کوئی ایسا شخص آئے جو طاقت و قوت میں مجھ سے زیادہ ہو اور مجھ سے کشتی لڑے اور مجھے گرا دے پھر میرا منہ مٹی میں ملا دے تو میں اٹھوں گا ورنہ بس اٹھ چکا ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اور کون آئے گا آ جا میں تیار ہوں چنانچہ کشتی ہونے لگی اور میں نے اسے پچھاڑا پھر اس کے منہ کو مٹی میں مل دیا اور اتنے میں عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آ گئے اور اسے میرے ہاتھ سے چھڑا دیا ، میں بڑا بگڑا اور اسی غصہ کی حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھتے ہی فرمایا : ” ابوحفص آج کیا بات ہے ؟ “ میں نے کل واقعہ کہہ سنایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اگر عمر اس سے خوش ہوتا تو اس پر رحم کرتا اللہ کی قسم میرے نزدیک تو اس خبیث کا سر اتار لیتا تو اچھا تھا “ ، یہ سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یونہی وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور اس کی طرف لپکے ۔ خاصی دور نکل چکے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آواز دی اور فرمایا : ” بیٹھو سن تو لو کہ اللہ ابوجحش کی نماز سے بالکل بے نیاز ہے آسمان دنیا میں خشوع و خضوع والے بے شمار فرشتے اللہ کے سامنے سجدے میں پڑے ہوئے ہیں جو قیامت کو سجدے سے سر اٹھائیں گے اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے کہ اب بھی ہمارے رب ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا ، اسی طرح دوسرے آسمان میں بھی یہی حال ہے “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! ان کی تسبیح کیا ہے ؟ فرمایا : ” آسمان دنیا کے فرشتے تو کہتے ہیں «سُبْحَان ذِی الْمُلْک وَالْمَلَکُوت» اور دوسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں «سُبْحَان ذِی الْعِزَّۃ وَالْجَبَرُوت» اور تیسرے آسمان کے فرشتے کہتے ہیں «سُبْحَان الْحَیّ الَّذِی لَا یَمُوت» ، عمر ! تو بھی اپنی نماز میں اسے کہا کر “ ۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : یا رسول اللہ ! اس سے پہلے جو پڑھنا آپ نے سکھایا ہے اور جس کے پڑھنے کو فرمایا ہے اس کا کیا ہو گا ؟ کہا ” کبھی یہ کہو ، کبھی وہ پڑھو “ پہلے جو پڑھنے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا وہ یہ تھا «أَعُوذ بِعَفْوِک مِنْ عِقَابک وَأَعُوذ بِرِضَاک مِنْ سَخَطک وَأَعُوذ بِک مِنْک جَلَّ وَجْہک» یعنی اللہ ! تیرے عذابوں سے میں تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں اور تیری ناراضگی سے تیری رضا مندی کی پناہ چاہتا ہوں اور تجھ سے تیری ہی پناہ پکڑتا ہوں اور تیرا چہرہ جلال والا ہے ۔ ۱؎ (تعظیم قدر الصلاۃ،256:ضعیف) اور اسحاق مروزی رحمہ اللہ جو راوی حدیث ہے اس سے امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ روایت کرتے ہیں اور امام ابن حبان رحمتہ اللہ علیہ بھی انہیں ثقہ راویوں میں گنتے ہیں لیکن امام ابوداؤد ، امام نسائی ، امام عقیلی اور امام دارقطنی رحمہ اللہ علیہم انہیں ضعیف کہتے ہیں ۔ امام ابو حاتم رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں تھے تو یہ سچے مگر نابینا ہو گئے تھے اور کبھی کبھی تلقین قبول کر لیا کرتے تھے ہاں ان کی کتابوں کی مرویات صحیح ہیں ۔ ان سے یہ بھی مروی ہے کہ یہ مضطرب ہیں اور ان کے استاد عبدالملک بن قدامہ ابوقتادہ جمعی میں بھی کلام ہے ۔ تعجب ہے کہ امام محمد بن نصر رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی اس حدیث کو کیسے روایت کر دیا ؟ اور نہ تو اس پر کلام کیا ، نہ اس کے حال کو معلوم کرایا ، نہ اس کے بعض راویوں کے ضعف کو بیان کیا ۔ ہاں اتنا تو کیا ہے کہ اسے دوسری سند سے مرسلاً روایت کر دیا ہے اور مرسل کی دو سندیں لائے ہیں ایک سعید بن جبیر سے دوسری حسن بصری رحمہ اللہ علیہم سے ۔ پھر ایک اور روایت لائے ہیں کہ عدی بن ارطاۃ رحمہ اللہ نے مدائن کی جامع مسجد میں اپنے خطبہ میں فرمایا کہ میں نے ایک صحابی سے سنا ہے انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ کے بہت سے ایسے فرشتے ہیں جو ہر وقت خوف اللہ سے کپکپاتے رہتے ہیں ان کے آنسو گرتے رہتے ہیں اور وہ ان فرشتوں پر ٹپکتے ہیں جو نماز میں مشغول ہیں اور ان میں ایسے فرشتے بھی ہیں جو ابتداء دنیا سے رکوع میں ہی ہیں اور بعض سجدے میں ہی ہیں قیامت کے دن اپنی پیٹھ اور اپنا سر اٹھائیں گے اور نہایت عاجزی سے جناب باری تعالیٰ میں عرض کریں گے کہ اللہ تو پاک ہے ہم سے تیری عبادت کا حق ادا نہیں ہو سکا “ ۔ ۱؎ (تعظیم قدر الصلاۃ،260:ضعیف) اس حدیث کی اسناد میں کوئی حرج نہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ یہ آگ جس کا وصف تم سن چکے یہ لوگوں کے لیے سراسر باعث عبرت و نصیحت ہے ‘ ۔ پھر چاند کی رات کے جانے کی صبح کے روشن ہونے کی قسمیں کھا کر فرماتا ہے کہ ’ وہ آگ ایک زبردست اور بہت بڑی چیز ہے ، جو اس ڈراوے کو قبول کر کے حق کی راہ لگنا چاہے لگ جائے ، جو چاہے اس کے باوجود حق کو پیٹھ ہی دکھاتا رہے ، اس سے دور بھاگتا رہے ، یا اسے رد کرتا رہے ‘ ۔