سورة الجن - آیت 25

قُلْ إِنْ أَدْرِي أَقَرِيبٌ مَّا تُوعَدُونَ أَمْ يَجْعَلُ لَهُ رَبِّي أَمَدًا

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اے پیغمبر ان سے) کہیے کہ میں نہیں جانتا کہ جس (عذاب) کا تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ قریب ہے یا میرا رب اس کے لیے ایک مدت مقرر فرماتا ہے

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

اللہ کے سوا قیامت کب ہوگی کسی کو نہیں معلوم اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتا ہے کہ ’ لوگوں سے کہہ دیں کہ قیامت کب ہو گی ، اس کا علم مجھے نہیں ، بلکہ میں یہ بھی نہیں جانتا کہ اس کا وقت قریب ہے یا دور ہے اور لمبی مدت کے بعد آنے والی ہے ‘ ۔ اس آیت کریمہ میں دلیل ہے اس امر کی کہ اکثر جاہلوں میں جو مشہور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ و السلام زمین کی اندر کی چیزوں کا بھی علم رکھتے ہیں وہ بالکل غلط ہے اس روایت کی کوئی اصل نہیں محض جھوٹ ہے اور بالکل بے اصل روایت ہے ہم نے تو اسے کسی کتاب میں نہیں پایا ، ہاں اس کے خلاف صاف ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے قیامت کے قائم ہونے کا وقت پوچھا جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی معین وقت سے اپنی لاعلمی ظاہر کرتے تھے ، اعرابی کی صورت میں جبرائیل علیہ السلام نے بھی آ کر جب قیامت کے بارے میں سوال کیا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف فرمایا تھا کہ اس کا علم نہ پوچھنے والے کو ہے نہ اسے جس سے پوچھا جا رہا ہے ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:50) ایک اور حدیث میں ہے کہ { ایک دیہات کے رہنے والے نے باآواز بلند آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” وہ آئے گی ضرور مگر یہ بتا کہ تو نے اس کے لیے کیا تیاری کر رکھی ہے ؟ “ اس نے کہا : میرے پاس روزے نماز کی کثرت تو نہیں البتہ اللہ اور رسول کی محبت ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” پھر تو اس کے ساتھ ہو گا جس کی تجھے محبت ہے “ ، سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسلمان کسی حدیث سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے اس حدیث سے } ۱؎ (صحیح بخاری:6167) اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ قیامت کا ٹھیک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا ، ابن ابی حاتم میں ہے کہ { آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اے لوگو ! اگر تم میں علم ہے تو اپنے تئیں مردوں میں شمار کیا کرو اللہ کی قسم جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ یقیناً ایک وقت آنے والی ہے “ } ۱؎ (ابن ابی الدنیا فی قصر الامل ص:28-29:ضعیف) یہاں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی مقررہ وقت نہیں بتاتے ، ابوداؤد میں ہے کہ { اللہ تعالیٰ اس امت کو کیا عجب کہ آدھے دن تک کی مہلت دیدے } ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4349،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور روایت میں اتنا اور بھی ہے کہ سعد سے پوچھا گیا کہ آدھے دن سے کیا مراد ہے فرمایا : پانچ سو سال ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:4350،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اللہ ہی عالم الغیب ہے پھر فرماتا ہے ’ اللہ عالم الغیب ہے وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا مگر مرسلین میں سے جسے چن لے ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْءٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَاءَ» ۱؎ (2-البقرۃ:255) یعنی ’ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہٰ نہیں کر سکتے مگر جو اللہ چاہے ‘ ۔ یعنی رسول خواہ انسانوں میں سے ہوں خواہ فرشتوں میں سے ہوں جسے اللہ جتنا چاہتا ہے بتا دیتا ہے بس وہ اتنا ہی جانتے ہیں ۔ پھر اس کی مزید تخصیص یہ ہوتی ہے کہ اس کی حفاظت اور ساتھ ہی اس علم کی اشاعت کے لیے جو اللہ نے اسے دیا ہے اس کے آس پاس ہر وقت نگہبان فرشتے مقرر رہتے ہیں ۔ «لِّیَعْلَمَ» کی ضمیر بعض نے تو کہا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے یعنی جبرائیل علیہ السلام کے آگے پیچھے چار چار فرشتے ہوتے تھے تاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین آ جائے کہ انہوں نے اپنے رب کا پیغام صحیح طور پر مجھے پہنچایا ہے اور بعض کہتے ہیں مرجع ضمیر کا اہل شرک ہے یعنی باری باری آنے والے فرشتے نبی اللہ کی حفاظت بھی کرتے ہیں شیطان سے اور اس کی ذریات سے تاکہ اہل شرک جان لیں کہ رسولوں نے رسالت اللہ ادا کر دی ، یعنی رسولوں کو جھٹلانے والے بھی رسولوں کی رسالت کو جان لیں مگر اس میں کچھ اختلاف ہے ۔ امام یعقوب کی قرأت پیش کے ساتھ ہے یعنی لوگ جان لیں کہ رسولوں نے تبلیغ کر دی اور ممکن ہے کہ یہ مطلب ہو کہ اللہ تعالیٰ جان لے یعنی وہ اپنے رسولوں کی اپنے فرشتے بھیج کر حفاظت کرتا ہے تاکہ وہ رسالت ادا کر سکیں اور وحی الٰہی محفوظ رکھ سکیں اور اللہ جان لے کہ انہوں نے رسالت ادا کر دی ۔ جیسے فرمایا «وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِی کُنتَ عَلَیْہَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن یَنقَلِبُ عَلَیٰ عَقِبَیْہِ» ۱؎ (2-البقرہ:143) یعنی ’ جس قبیلے پر تو تھا اسے ہم نے صرف اس لیے مقرر کیا تھا کہ ہم رسول کے سچے تابعداروں اور مرتدوں کو جان لیں ‘ ۔ اور جگہ ہے «‏‏‏‏وَلَیَعْلَمَنَّ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیَعْلَمَنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ»‏‏‏‏ ۱؎ (29-العنکبوت:11) یعنی ’ اللہ تعالیٰ ایمان والوں کو اور منافقوں کو برابر جان لے گا ‘ اور بھی اس قسم کی آیتیں ہیں مطلب یہ ہے کہ اللہ پہلے ہی سے جانتا ہے لیکن اسے ظاہر کر کے بھی جان لیتا ہے ، اسی لیے یہاں اس کے بعد ہی فرمایا کہ ’ ہر چیز اور سب کی گنتی اللہ کے علم کے احاطہٰ میں ہے ‘ ۔ «اَلْحَمْدُ لِلہِ» سورۃ الجن کی تفسیر ختم ہوئی ۔