إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
(مسلمانو) یقینا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم امانتیں ان کے حق داروں تک پہنچاؤ، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ فیصلہ کرو۔ یقین جانو اللہ تم کو جس بات کی نصیحت کرتا ہے وہ بہت اچھی ہوتی ہے۔ بیشک اللہ ہر بات کو سنتا اور ہر چیز کو دیکھتا ہے۔
امانت اور عدل و انصاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’ جو تیرے ساتھ امانت داری کا برتاؤ کرے تو اس کی امانت ادا کر اور جو تیرے ساتھ خیانت کرے تو اس سے خیانت مت کر ۔ ‘ ۱؎ (سنن ابوداود:3535،قال الشیخ الألبانی:صحیح) آیت کے الفاظ وسیع المعنی ہیں ۔ ان میں اللہ تعالیٰ عزوجل کے حقوق کی ادائیگی بھی شامل ہے جیسے روزہ نماز زکوٰۃ کفارہ نذر وغیرہ ، اور بندوں کے آپس کے کل حقوق بھی شامل ہیں جیسے امانت دی ہوئی چیزیں وغیرہ ، پس جس حق کو ادا نہ کرے گا اسکی پکڑ قیامت کے دن ہوگی ۔ صحیح حدیث میں ہے ’ قیامت کےدن ہر حقدار کا حق اسے دلوایا جائے گا یہاں تک کہ بےسینگ والی بکری کو اگر سینگوں والی بکری نے مارا ہے تو اس کا بدلہ بھی اسے دلوایا جائے گا ۔ ‘ ۱؎ (صحیح مسلم:2582) سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شہادت کی وجہ سے تمام گناہ مٹ جاتے ہیں مگر امانت نہیں مٹنے لگی کوئی شخص اللہ کی راہ میں شہید بھی ہوا تو اسے بھی قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا کہ اپنی امانت ادا کر وہ جواب دے گا کہ دنیا تو اب ہے نہیں میں کہاں سے اسے ادا کروں ؟ فرماتے ہیں پھر وہ چیز اسے جہنم کی تہہ میں نظر آئے گی اور کہا جائے گا کہ جا اسے لے آ وہ اسے اپنے کندھے پر لاد کر لے چلے گا لیکن وہ گر پڑے گی وہ پھر اسے لینے جائے گا بس اسی عذاب میں وہ مبتلا رہے گا زاذان اس روایت کو سن کر سیدنا براء رضی اللہ عنہ کے پاس آ کر بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں میرے بھائی نے سچ کہا پھر قرآن کی اس آیت کو پڑھتے ہیں ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ فرماتے ہیں ہر نیک و بد پر یہی حکم ہے ، ابوالعالیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس چیز کا حکم دیا گیا اور جس چیز سے منع کیا گیا وہ سب امانت ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں عورت اپنی شرمگاہ کی امانت دار ہے ، سیدنا ربیع بن انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جو جو معاملات تیرے اور دوسرے لوگوں کے درمیان ہوں وہ سب اسی میں شامل ہے ، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اس میں یہ بھی داخل ہے کہ سلطان عید والے دن عورتوں کو خطبہ سنائے ۔ اس آیت کی شان نزول میں مروی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ فتح کیا اور اطمینان کے ساتھ بیت اللہ شریف میں آئے تو اپنی اونٹنی پر سوار ہو کر طواف کیا ۔ حجر اسود کو اپنی لکڑی سے چھوتے تھے اس کے بعد سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما کو جو کعبہ کی کنجی برادر تھے بلایا ان سے کنجی طلب کی انہوں نے دینا چاہی اتنے میں سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب یہ مجھے سونپئے تاکہ میرے گھرانے میں زمزم کا پانی پلانا اور کعبہ کی کنجی رکھنا دونوں ہی باتیں رہیں یہ سنتے ہی سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنا ہاتھ روک لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ طلب کی پھر وہی واقعہ ہوا آپ نے سہ بارہ طلب کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر دے دی کہ اللہ کی امانت آپ کو دیتا ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کا دروازہ کھول اندر گئے وہاں جتنے بت اور تصویریں تھیں سب توڑ کر پھینک دیں ابراہیم علیہ السلام کا بت بھی تھا جس کے ہاتھ میں فال کے تیر تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’ اللہ ان مشرکین کو غارت کرے بھلا خلیل اللہ کو ان تیروں سے کیا سروکار ؟ ‘ پھر ان تمام چیزوں کو برباد کر کے ان کی جگہ پانی ڈال کر ان کے نام و نشان مٹا کر آپ باہر آئے کعبہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر آپ نے کہا ’ کوئی معبود نہیں بجز اللہ کے وہ اکیلا ہے جس کا کوئی شریک نہیں اس نے اپنے وعدے کو سچا کیا اپنے بندے کی مدد کی اور تمام لشکروں کو اسی اکیلے نے شکست دی ۔ ‘ پھر آپ نے ایک لمبا خطبہ دیا جس میں یہ بھی فرمایا کہ ’ جاہلیت کے تمام جھگڑے اب میرے پاؤں تلے کچل دئیے گئے خواہ مالی ہوں خواہ جانی ہوں ہاں بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو پانی پلانے کا منصب جوں کا توں باقی رہے گا ‘ اس خطبہ کو پورا کر کے آپ بیٹھے ہی تھے جو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر کہا حضور چابی مجھے عنایت فرمائی جائے تاکہ بیت اللہ کی چوکیداری کا اور حاجیوں کو زمزم پلانے کا منصب دونوں یکجا ہو جائیں لیکن آپ نے انہیں نہ دی مقام ابراہیم کو کعبہ کے اندر سے نکال کر آپ نے کعبہ کی دیوار سے ملا کر رکھ دیا اور لوگوں سے کہہ دیا کہ تمہارا قبلہ یہی ہے پھر آپ طواف میں مشغول ہو گئے ابھی وہ چند پھیرے ہی پھرے تھے جو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور آپ نے اپنی زبان مبارک سے اس آیت کی تلاوت شروع کی ، اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میرے ماں باپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہوں میں نے تو اس سے پہلے آپ کو اس آیت کی تلاوت کرتے نہیں سنا اب آپ نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما کو بلایا اور انہیں کنجی سونپ دی اور فرمایا ’ آج کا دن وفا کا نیکی اور سلوک کا دن ہے ۔ ‘ ۱؎ (سیرہ ابن ھشام:42/4:حسن) یہ وہی سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہما ہیں جن کی نسل میں آج تک کعبۃ اللہ کی کنجی چلی آرہی ہے ۔ یہ صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے درمیان اسلام لائے جب ہی سیدنا خالد بن ولید اور سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما بھی مسلمان ہوئے تھے ان کا چچا عثمان بن طلحہ احمد کی لڑائی میں مشرکوں کے ساتھ تھا بلکہ ان کا جھنڈا بردار تھا اور وہیں بحالت کفر مارا گیا تھا ۔ الغرض مشہور تو یہی ہے کہ یہ آیت اسی بارے میں اتری ہے اب خواہ اس بارے میں نازل ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو بہرصورت اس کا حکم عام ہے جیسے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ کا قول ہے کہ ہر شخص کو دوسرے کی امانت کی ادائیگی کا حکم ہے پھر ارشاد ہے کہ فیصلے عدل کے ساتھ کرو حاکموں کو احکم الحاکمین کا حکم ہو رہا ہے کہ کسی حالت میں عدل کا دامن نہ چھوڑو ، حدیث میں ہے ’ اللہ حاکم کے ساتھ ہوتا ہے جب تک کہ وہ ظلم نہ کرے جب ظلم کرتا ہے تو اسے اسی کی طرف سونپ دیتا ہے ۔ ‘ ۱؎ (سنن ترمذی:1330،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ایک اثر میں ہے { ایک دن کا عدل چالیس سال کی عبادت کے برابر ہے ۔} پھر فرماتا ہے یہ ادائیگی امانات کا اور عدل و انصاف کا حکم اور اسی طرح شریعت کے تمام احکام اور تمام ممنوعات تمہارے لیے بہترین اور نافع چیزیں ہیں جن کا امر پروردگار نے تمہیں کردیا ہے [ ابن ابی حاتم ] اور روایت میں ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے آخری الفاظ پڑھتے ہوئے اپنا انگوٹھا اپنے کان میں رکھا اور شہادت کی انگلی اپنی آنکھ پر رکھی [ یعنی اشارے سے سننا دیکھنا کان اور آنکھ پر انگلی رکھ کر بتایا ] فرمایا میں نے اسی طرح پڑھتے اور کرتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ۔ راوی حدیث ابو زکریا رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہمارے استاد مقری رحمہ اللہ نے بھی اسی طرح پڑھ کر اشارہ کر کے ہمیں بتایا اپنے داہنے ہاتھ کا انگوٹھا اپنی دائیں آنکھ پر رکھا اور اس کے پاس کی انگلی اپنے داہنے کان پر رکھی ( ابن ابی حاتم ) یہ حدیث اسی طرح امام ابوداؤد رحمہ اللہ نے بھی روایت کی ہے ۱؎ (سنن ابوداود:4728،قال الشیخ الألبانی:صحیح) اور امام ابن حبان نے بھی اپنی صحیح میں اسے نقل کیا ہے ۔ اور حاکم نے مستدرک میں اور ابن مردویہ نے اپنی تفسیر میں بھی اسے وارد کیا ہے ، اس کی سند میں جو ابو یونس ہیں جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے مولی ہیں اور ان کا نام سلیم بن جیر رحمہ اللہ ہے ۔