سورة القلم - آیت 42

يَوْمَ يُكْشَفُ عَن سَاقٍ وَيُدْعَوْنَ إِلَى السُّجُودِ فَلَا يَسْتَطِيعُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہ دن آنے والا ہے جب کہ ساق (الٰہی) کھلے گی اور ان لوگوں کوسرافگندگی (سجدے) کید عوت دی جائیگی مگر اس سوقت ان میں اتنی قدرت واستطاعت کہاں؟

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

سجدہ اس وقت منافقوں کے بس میں نہیں ہو گا اوپر بیان ہو چکا ہے کہ ’ پرہیزگار لوگوں کے لیے نعمتوں والی جنتیں ہیں ‘ ، اس لئے یہاں بیان ہو رہا ہے کہ یہ جنتیں انہیں کب ملیں گی ؟ تو فرمایا کہ ’ اس دن جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ‘ ۔ یعنی قیامت کے دن ، جو دن بڑی ہولناکیوں والا ، زلزلوں والا ، امتحان والا اور آزمائش والا اور بڑے بڑے اہم امور کے ظاہر ہونے کا دن ہو گا ۔ صحیح بخاری میں اس جگہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ { میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ، فرماتے تھے ” ہمارا رب اپنی پنڈلی کھول دے گا پس ہر مومن مرد اور ہر مومنہ عورت سجدے میں گر پڑے گی ہاں دنیا میں جو لوگ دکھاوے سناوے کے لیے سجدہ کرتے تھے وہ بھی سجدہ کرنا چاہیں گے لیکن ان کی کمر تختہ کی طرف ہو جائے گی ، یعنی ان سے سجدے کے لیے جھکا نہ جائے گا “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4919) یہ حدیث بخاری مسلم دونوں میں ہے اور دوسری کتابوں میں بھی ہے کئی کئی سندوں سے الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ مروی ہے اور یہ حدیث مطول ہے اور مشہور ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں ” یہ دن تکلیف دکھ درد اور شدت کا دن ہے “ ۔ (ابن جریر) اور ابن جریر اسے دوسری سند سے شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں وہ سیدنا ابن مسعود یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے «‏‏‏‏یَوْمَ یُکْشَفُ عَنْ سَاقٍ وَّیُدْعَوْنَ اِلَی السٰجُوْدِ فَلَا یَسْتَطِیْعُوْنَ» ۱؎ (68-القلم:42) کی تفسیر میں بہت بڑا عظیم الشان امر مروی ہے ۔ جیسے شاعر کا قول ہے «وَقَامَتِ الْحَرْبُ بِنَا عَنْ سَاقٍ» یہاں بھی لڑائی کی عظمت اور بڑائی بیان کی گئی ہے ، مجاہد رحمہ اللہ سے بھی یہی مروی ہے ۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں قیامت کے دن کی یہ گھڑی بہت سخت ہو گی ، آپ فرماتے ہیں یہ امر بہت سخت بڑی گھبراہٹ والا اور ہولناک ہے ، آپ فرماتے ہیں جس وقت امر کھول دیا جائے گا اعمال ظاہر ہو جائیں گے اور یہ کھلنا آخرت کا آ جاتا ہے اور اس سے کام کا کھل جانا ہے ۔ یہ سب روایتیں ابن جریر میں ہیں ۔ اس کے بعد یہ حدیث ہے کہ { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تفسیر میں فرمایا : ” مراد بہت بڑا نور ہے لوگ اس کے سامنے سجدے میں گر پڑیں گے “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:42/29:ضعیف) یہ حدیث ابویعلیٰ میں بھی ہے اور اس کی اسناد میں ایک مبہم راوی ہے ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» [ یاد رہے کہ صحیح تفسیر وہی ہے جو بخاری مسلم کے حوالے سے اوپر مرفوع حدیث میں گزری کہ اللہ عزوجل اپنی پنڈلی کھولے گا ، دوسری حدیث بھی مطلب کے لحاظ سے ٹھیک ہے کیونکہ اللہ خود نور اور اقوال بھی اس طرح ٹھیک ہیں کہ جہانوں کے پروردگار کی پنڈلی بھی ظاہر ہو گی اور ساتھ ہی وہ ہولناکیاں اور شدتیں بھی ہوں گی ۔ «وَاللہُ اَعْلَمُ» مترجم ] دنیا میں سجدہ نہ کرنے والے کی قیامت کو حالت پھر فرمایا ’ جس دن ان لوگوں کی آنکھیں اوپر کو نہ اٹھیں گی اور ذلیل و پست ہو جائیں گے کیونکہ دنیا میں بڑے سرکش اور کبر و غرور والے تھے ، صحت اور سلامتی کی حالت میں دنیا میں جب انہیں سجدے کے لیے بلایا جاتا تھا تو رک جاتے تھے جس کی سزا یہ ملی کہ آج سجدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن نہیں کر سکتے پہلے کر سکتے تھے لیکن نہیں کرتے تھے ، اللہ تعالیٰ کی تجلی دیکھ کر مومن سب سجدے میں گر پڑیں گے لیکن کافر و منافق سجدہ نہ کر سکیں گے ، کمر تختہ ہو جائے گی ، جھکے گی ہی نہیں بلکہ پیٹھ کے بل چت گر پڑیں گے ، یہاں بھی ان کی حالت مومنوں کے خلاف تھی ، وہاں بھی خلاف ہی رہے گی ‘ ۔ پھر فرمایا ’ مجھے اور میری اس حدیث یعنی قرآن کو جھٹلانے والوں کو تو چھوڑ دے ، اس میں بڑی وعید ہے اور سخت ڈانٹ ہے کہ تو ٹھہر جا میں خود ان سے نپٹ لوں گا ، دیکھ تو سہی کہ کس طرح بتدریج انہیں پکڑتا ہوں یہ اپنی سرکشی اور غرور میں پڑتے جائیں گے ، میری ڈھیل کے راز کو نہ سمجھیں گے اور پھر ایک دم یہ پاپ کا گھڑا پھوٹے گا اور میں اچانک انہیں پکڑ لوں گا ۔ میں انہیں بڑھاتا رہوں گا یہ بدمست ہوتے چلے جائیں گے وہ اسے کرامت سمجھیں گے حالانکہ وہ اہانت ہو گی ‘ ۔ جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏أَیَحْسَبُونَ أَنَّمَا نُمِدٰہُم بِہِ مِن مَّالٍ وَبَنِینَ نُسَارِعُ لَہُمْ فِی الْخَیْرَاتِ بَل لَّا یَشْعُرُونَ» ۱؎ (23-المؤمنون:56،55) ، یعنی ’ کیا ان کا گمان ہے کہ مال و اولاد کا بڑھنا ان کے لیے ہماری جانب سے کسی بھلائی کی بنا پر ہے ، نہیں بلکہ یہ بے شعور ہیں ‘ ۔ اور جگہ فرمایا «‏‏‏‏فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیْءٍ حَتّٰی اِذَا فَرِحُوْا بِمَآ اُوْتُوْٓا اَخَذْنٰہُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ہُمْ مٰبْلِسُوْنَ» ۱؎ (6-الأنعام:44) ’ جب یہ ہمارے وعظ و پند کو بھلا چکے تو ہم نے ان پر تمام چیزوں کے دروازے کھول دیئے یہاں تک کہ انہیں جو دیا گیا تھا اس پر اترانے لگے تو ہم نے انہیں ناگہانی پکڑ لیا اور ان کی امیدیں منقطع ہو گئیں ‘ ۔ یہاں بھی ارشاد ہوتا ہے ’ میں انہیں ڈھیل دوں گا ، بڑھاؤں گا اور اونچا کروں گا یہ میرا داؤ ہے اور میری تدبیر میرے مخالفوں اور میرے نافرمانوں کے ساتھ بہت بڑی ہے ‘ ۔ بخاری مسلم میں ہے { نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے پھر جب پکڑتا ہے تو چھوڑتا نہیں “ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4686) «‏‏‏‏وَکَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ۭ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌ» ۱؎ (11-ھود:102) یعنی ’ اسی طرح ہے تیرے رب کی پکڑ جبکہ وہ کسی بستی والوں کو پکڑتا ہے جو ظالم ہوتے ہیں اس کی پکڑ بڑی درد ناک اور بہت سخت ہے ‘ ۔ پھر فرمایا ’ تو کچھ ان سے اجرت اور بدلہ تو مانگتا ہی نہیں جو ان پر بھاری پڑتا ہو جس تاوان سے یہ جھکے جاتے ہوں ، نہ ان کے پاس کوئی علم غیب ہے جسے یہ لکھ رہے ہوں ‘ ۔ ان دونوں جملوں کی تفسیر سورۃ والطور میں گزر چکی ہے خلاصہ مطلب یہ ہے کہ اے نبی ! آپ انہیں اللہ عزوجل کی طرف بغیر اجرت اور بغیر مال طلبی کے اور بغیر بدلے کی چاہت کے بلا رہے ہیں آپ کی غرض سوائے ثواب حاصل کرنے کے اور کوئی نہیں اس پر بھی یہ لوگ صرف اپنی جہالت اور کفر اور سرکشی کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جھٹلا رہے ہیں ۔