الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا آتَاهُمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ ۗ وَأَعْتَدْنَا لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا
ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسی کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی کنجوسی کی تلقین کرتے ہیں، اور اللہ نے ان کو اپنے فضل سے جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپاتے ہیں، اور ہم نے ایسے ناشکروں کے لیے زلیل کردینے والا عذاب تیار رکھا ہے۔
اللہ تعالٰی کی راہ میں خرچ سے کترانے والے بخیل لوگ ارشاد ہوتا ہے کہ جو لوگ اللہ کی خوشنودی کے موقعہ پر مال خرچ کرنے سے جی چراتے ہیں مثلاً ماں باپ کو دینا ، قرابت داروں سے اچھا سلوک نہیں کرتے ، یتیم مسکین پڑوسی رشتہ دار غیر رشتہ دار پڑوسی ساتھی مسافر غلام اور ماتحت کو ان کی محتاجی کے وقت فی سبیل اللہ نہیں دیتے ، اتنا ہی نہیں بلکہ لوگوں کو بھی بخل اور فی سبیل اللہ خرچ نہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے کون سی بیماری بخل کی بیماری سے بڑھ کر ہے؟ ۱؎ (صحیح بخاری:4383) اور حدیث میں ہے لوگو بخیلی سے بچو اسی نے تم سے اگلوں کو تاخت و تاراج کیا اسی کے باعث ان سے قطع رحمی اور فسق و فجور جیسے برے کام نمایاں ہوئے۔۱؎ (سنن ابوداود:1698،قال الشیخ الألبانی:صحیح) پھر فرمایا یہ لوگ ان دونوں برائیوں کے ساتھ ہی ساتھ ایک تیسری برائی کے بھی مرتکب ہیں یعنی اللہ کی نعمتوں کو چھپاتے ہیں انہیں ظاہر نہیں کرتے نہ ان کے کھانے پینے میں وہ ظاہر ہوتی ہیں نہ پہننے اوڑھنے میں نہ دینے لینے میں جیسے اور جگہ ہے «اِنَّ الْاِنْسَانَ لِرَبِّہٖ لَکَنُوْدٌ وَاِنَّہٗ عَلٰی ذٰلِکَ لَشَہِیْدٌ» ۱؎ (100-العادیات:6-7) یعنی ’ انسان اپنے رب کا ناشکرا ہے اور وہ خود ہی اپنی اس حالت اور اس خصلت پر گواہ ہے ‘ ، پھر «وَاِنَّہٗ لِحُبِّ الْخَیْرِ لَشَدِیْدٌ» ۱؎ (100-العادیات:8) ’ وہ مال کی محبت میں مست ہے ‘ ، پس یہاں بھی فرمان ہے کہ اللہ کے فضل کو یہ چھپاتا رہتا ہے۔ پھر انہیں دھمکایا جاتا ہے کہ کافروں کے لیے ہم نے اہانت آمیز عذاب تیار کر رکھے ہیں، «کفر» کے معنی ہیں پوشیدہ رکھنا اور چھپا لینا پس بخیل بھی اللہ کی نعمتوں کا چھپانے والا ان پر پردہ ڈال رکھنے والا بلکہ ان کا انکار کرنے والا ہے پس وہ نعمتوں کا کافر ہوا ۔ حدیث شریف میں ہے اللہ جب کسی بندے پر اپنی نعمت انعام فرماتا ہے تو چاہتا ہے کہ اس کا اثر اس پر ظاہر ہو ۔ ۱؎ (مسند احمد:3/473،قال الشیخ الألبانی:صحیح) دعا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے «وَاجْعَلنَْا شَاکِرِیْنَ لِنِعْمَتِکَ مُثْنِیْنَ بِھَا عَلَیْکَ قَابِلِیْھَاوَاتِمَّـہَا عَلَیْناَ» اے اللہ ! ہمیں اپنی نعمتوں پر شکر گزار بنا اور ان کی وجہ سے ہمیں اپنا ثنا خوان بنا ان کا قبول کرنے والا بنا اور ان کی نعمتوں کو ہمیں بھرپور عطا فرما ۔ ۱؎ (سنن ابوداود:969،قال الشیخ الألبانی:صحیح) بعض سلف کا قول ہے کہ یہ آیت یہودیوں کے اس بخل کے بارے میں ہے جو وہ اپنی کتاب میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صفات کے چھپانے میں کرتے تھے اسی لیے اس کے آخر میں ہے کہ کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب ہم نے تیار کر رکھے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اس آیت کا اطلاق ان پر بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ بظاہر یہاں مال کا بخل بیان ہو رہا ہے گو علم کا بخل بھی اس میں بطور اولیٰ داخل ہے۔ خیال کیجئے کہ بیان آیت «اقرباضعفا» کو مال دینے کے بارے میں ہے اسی طرح اس کے بعد والی آیت میں ریاکاری کے طور پر فی سبیل اللہ مال دینے کی مذمت بھی بیان کی جا رہی ہے۔ پہلے ان کا بیان ہوا جو ممسک اور بخیل ہیں کوڑی کوڑی کو دانتوں سے تھام رکھتے ہیں۔ پھر ان کا بیان ہوا جو دیتے تو ہیں لیکن بدنیتی اور دنیا میں اپنی واہ واہ ہونے کی خاطر دیتے ہیں چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ جن تین قسم کے لوگوں سے جہنم کی آگ سلگائی جائے گی وہ یہی ریاکار ہوں گے ، ریاکار عالم ، ریاکار غازی، ریا کار سخی ایسا سخی کہے گا باری تعالیٰ تیری ہر ہر راہ میں ، میں نے اپنا مال خرچ کیا تو اسے اللہ تعالیٰ کی جناب سے جواب ملے گا کہ تو جھوٹا ہے تیرا ارادہ تو صرف یہ تھا کہ تو سخی اور جواد مشہور ہو جائے سو وہ ہو چکا ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:1905) یعنی تیرا مقصود دنیا کی شہرت تھی وہ میں نے تجھے دنیا میں ہی دے چکا پس تیری مراد حاصل ہو چکی ۔ اور حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تیرے باپ نے اپنی سخاوت سے جو چاہتا تھا وہ اسے مل گیا۔ ۱؎ (مسند احمد:258/4:حسن بالشواھد) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوتا ہے کہ عبداللہ بن جدعان تو بڑا سخی تھا جس نے مساکین و فقراء کے ساتھ بڑے سلوک کئے اور نام الہ بہت سے غلام آزاد کئے تو کیا اسے ان کا نفع نہ ملے گا؟ آپ نے فرمایا : ” نہیں اس سے تو عمر بھر میں ایک دن بھی نہ کہا کہ اے اللہ میرے گناہوں کو قیامت کے دن معاف فرما دینا “ ۔ ۱؎ (صحیح مسلم:214) اسی لیے یہاں بھی فرماتا ہے کہ ان کا ایمان اللہ اور قیامت پر نہیں۔ ورنہ شیطان کے پھندے میں نہ پھنس جاتے اور بد کو بھلا نہ سمجھ بیٹھتے یہ شیطان کے ساتھی ہیں اور شیطان ان کا ساتھی ہے ساتھی کی برائی پر ان کی برائی بھی سوچ لو عرب شاعر کہتا ہے «عن المرء لا تسال وسل عن قرینہ» * «فکل قرین بالمقارن یقتدی» انسان کے بارے میں نہ پوچھ اس کے ساتھیوں کا حال دریافت کر لے۔ ہر ساتھی اپنے ساتھی کا ہی پیرو کار ہوتا ہے۔ پھر ارشاد فرماتا ہے کہ انہیں اللہ پر ایمان لانے اور صحیح راہ پر چلنے اور ریاکاری کو چھوڑ دینے اور اخلاص و یقین پر قائم ہو جانے سے کون سی چیز مانع ہے؟ ان کا اس میں کیا نقصان ہے؟ بلکہ سراسر فائدہ ہے کہ ان کی عاقبت سنور جائے گی یہ کیوں اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے سے تنگ دلی کر رہے ہیں ۔ اللہ کی محبت اور اس کی رضا مندی حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کرتے؟ اللہ انہیں خوب جانتا ہے ان کی بھلی اور بری نیتوں کا اسے علم ہے ، اہل توفیق اور غیر اہل توفیق سب اس پر ظاہر ہیں ، وہ بھلوں کو عمل صالح کی توفیق عطا فرما کر اپنی خوشنودی کے کام ان سے لے کر اپنی قربت انہیں عطا فرماتا ہے اور بروں کو اپنی عالی جناب اور زبردست سرکاری سے دھکیل دیتا ہے جس سے ان کی دنیا اور آخرت برباد ہوتی ہے ۔ «عَیَاذًا ابِاللہِ مِنْ ذٰلِکَ»