وَإِنْ خِفْتُمْ شِقَاقَ بَيْنِهِمَا فَابْعَثُوا حَكَمًا مِّنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا إِن يُرِيدَا إِصْلَاحًا يُوَفِّقِ اللَّهُ بَيْنَهُمَا ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا خَبِيرًا
اور اگر تمہیں میاں بیوی کے د رمیان پھوٹ پڑنے کا اندیشہ ہو تو (ان کے د رمیان فیصلہ کرانے کے لیے) ایک منصف مرد کے خاندان میں سے اور ایک منصف عورت کے خاندان میں سے بھیج دو۔ اگر وہ دونوں اصلاح کرانا چاہیں گے تو اللہ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا فرما دے گا۔ بیشک اللہ کو ہر بات کا علم اور ہر بات کی خبر ہے۔
میاں بیوی مصالحت کی کوشش اور اصلاح کے اصول اوپر اس صورت کو بیان فرمایا کہ اگر نافرمانی اور کج بحثی عورتوں کی جانب سے ہو اب یہاں اس صورت کا بیان ہو رہا ہے اگر دونوں ایک دوسرے سے نالاں ہوں تو کیا کیا جائے ؟ پس علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں حاکم ثقہ سمجھدار شخص کو مقرر کرے جو یہ دیکھے کہ ظلم و زیادتی کس طرف سے ہے؟ پس ظالم کو ظلم سے روکے ، اگر اس پر بھی کوئی بہتری کی صورت نہ نکلے تو عورت والوں میں سے ایک اس کی طرف سے اور مرد والوں میں سے ایک بہتر شخص اس کی جانب سے منصب مقرر کر دے اور دونوں مل کر تحقیقات کریں اور جس امر میں مصلحت سمجھیں اس کا فیصلہ کر دیں یعنی خواہ الگ کرا دیں خواہ میل ملاپ کرا دیں لیکن شارع علیہ السلام نے تو اسی امر کی طرف ترغیب دلائی ہے کہ جہاں تک ہو سکے کوشش کریں کہ کوئی شکل نباہ کی نکل آئے ۔ اگر ان دونوں کی تحقیق میں خاوند کی طرف سے برائی بہت ہو تو اس کی عورت کو اس سے الگ کر لیں اور اسے مجبور کریں گے کہ اپنی عادت ٹھیک ہونے تک اس سے الگ رہے اور اس کے خرچ اخراجات ادا کرتا رہے اور اگر شرارت عورت کی طرف سے ثابت ہو تو اسے نان نفقہ نہیں دلائیں اور خاوند سے ہنسی خوشی بسر کرنے پر مجبور کریں گے ۔ اسی طرح اگر وہ طلاق کا فیصلہ دیں تو خاوند کو طلاق دینی پڑے گی اگر وہ آپس میں بسنے کا فیصلہ کریں تو بھی انہیں ماننا پڑے گا ، بلکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اگر دونوں پنچ اس امر پر متفق ہوں گئے کہ انہیں رضا مندی کے ساتھ ایک دوسرے سے اپنے تعلقات نباہنے چاہئیں اور اس فیصلہ کو ایک نے منظور کرلیا اور دوسرا نہیں کرتا اور اسی حالت میں ایک کا انتقال ہو گیا تو جو راضی تھا وہ اس کی جائیداد کا وارث بنے گا لیکن جو ناراض تھا اسے اس کا ورثہ نہیں ملے گا جو راضی تھا۔ ۱؎ (:تفسیر ابن جریر الطبری:325/8) ایک ایسے ہی جھگڑے میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو منصف مقرر کیا تھا اور فرمایا تھا کہ اگر تم ان میں میل ملاپ کرنا چاہو تو میل ہو گا اور اگر جدائی کرانا چاہو تو جدائی ہو جائے گی۔ ایک روایت میں ہے کہ عقیل بن ابوطالب نے فاطمہ بنت عتبہ بن ربیعہ سے نکاح کیا تو اس نے کہا تو میرے پاس آئےگا بھی اور میں ہی تیرا خرچ بھی برداشت کرونگی ؟ اب یہ ہونے لگا کہ جب عقیل انکے پاس آنا چاہتے تو وہ پوچھتی عتبہ بن ربیعہ اور شیبہ بن ربیعہ کہاں ہیں؟ یہ فرماتے تیری بائیں جانب جہنم میں اس پر وہ بگڑ کر اپنے کپڑے ٹھیک کر لیتیں۔ ایک مرتبہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں اور واقعہ بیان کیا خلیفۃ المسلمین اس پر ہنسے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کا پنچ مقرر کیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما تو فرماتے تھے ان دونوں میں علیحدگی کرا دی جائے لیکن سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے بنو عبد مناف میں یہ علیحدگی میں ناپسند کرتا ہوں، اب یہ دونوں حضرات سیدنا عقیل رضی اللہ عنہ کے گھر آئے دیکھا تو دروازہ بند ہے اور دونوں میاں بیوی اندر ہیں یہ دونوں لوٹ گئے۔ مسند عبدالرزاق میں ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے زمانے میں ایک میاں بیوی اپنی ناچاقی کا جھگڑا لے کر آئے اس کے ساتھ اس کی برادری کے لوگ تھے اور اس کے ہمراہ اس کے گھرانے کے لوگ بھی، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے دونوں جماعتوں میں سے ایک ایک کو چنا اور انہیں منصف مقرر کر دیا پھر دونوں پنچوں سے کہا جانتے بھی ہو تمہارا کام کیا ہے ؟ تمہارا منصب یہ ہے کہ اگر چاہو تو دونوں میں اتفاق کرا دو اور اگر چاہو تو الگ الگ کرا دو یہ سن کرعورت نے تو کہا میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوں خواہ ملاپ کی صورت میں ہو خواہ جدائی کی صورت میں مرد کہنے لگا مجھے جدائی نامنظور ہے اس پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا نہیں نہیں اللہ کی قسم تجھے دونوں صورتیں منظور کرنی پڑیں گی۔ پس علماء کا اجماع ہے کہ ایسی صورت میں ان دونوں منصفوں کو دونوں اختیار ہیں یہاں تک کہ ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ چاہیں دو اور تین طلاقیں بھی دے سکتے ہیں، امام مالک رحمہ اللہ سے بھی یہی قول مروی ہے، ہاں حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انہیں اجتماع کا اختیار ہے تفریق کا نہیں، قتادہ اور زید بن اسلم رحمہ اللہ علیہما کا بھی یہی قول ہے، امام احمد اور ابوثور اور داؤد رحمہ اللہ علیہم کا بھی یہی مذہب ہے ان کی دلیل «اِنْ یٰرِیْدَآ اِصْلَاحًا یٰوَفِّقِ اللّٰہُ بَیْنَہُمَا» ۱؎ (4-النساء:35) والا جملہ ہے کہ ان میں تفریق کا ذکر نہیں، ہاں اگر یہ دونوں دونوں جانب سے وکیل ہیں تو بیشک ان کا حکم جمع اور تفریق دونوں میں نافذ ہوگا تو کسی سے خلاف منقول بھی نہیں اس میں کسی کو پھر یہ بھی خیال رہے کہ یہ دونوں پنچ حاکم کی جانب سے مقرر ہوں گے اور فیصلہ کریں گے ۔ چاہے ان سے فریقین ناراض ہوں یا یہ دونوں میاں بیوی کی طرف سے ان کے بنائے ہوئے وکیل ہوں گے، جمہور کا مذہب تو پہلا ہے اور دلیل یہ ہے کہ ان کا نام قرآن حکیم نے حکم رکھا ہے اور حکم کے فیصلے سے کوئی خوش یا ناخوش بہر صورت اس کا فیصلہ قطعی ہو گا آیت کے ظاہری الفاظ بھی جمہور کے ساتھ ہی ہیں ۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا نیا قول بھی یہی ہے اور امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے اصحاب کا بھی یہی قول ہے، لیکن مخالف گروہ کہتا ہے کہ اگر یہ حکم کی صورت میں ہوتے تو پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ اس خاوند کو کیوں فرماتے؟ کہ جس طرح عورت نے دونوں صورتوں کو ماننے کا اقرار کیا ہے اور اسی طرح تو بھی نہ مانے تو تو جھوٹا ہے۔ «واللہ اعلم» امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں علماء کرام کا اجماع ہے کہ دونوں پنچوں کا قول جب مختلف ہو تو دوسرے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں اور اس امر پر بھی اجماع ہے کہ یہ اتفاق کرانا چاہیں تو ان کا فیصلہ نافذ ہے ہاں اگر وہ جدائی کرانا چاہیں تو بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ اس میں بھی ان کا فیصلہ نافذ ہے گو انہیں وکیل نہ بنایا گیا ہو ۔