وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ عَتَتْ عَنْ أَمْرِ رَبِّهَا وَرُسُلِهِ فَحَاسَبْنَاهَا حِسَابًا شَدِيدًا وَعَذَّبْنَاهَا عَذَابًا نُّكْرًا
اور کتنی ہی آبادیاں تھیں جن کے رہنے والوں نے اپنے پروردگار اور اسکے رسولوں کی صداقتوں سے سرتابی کی اور عصیان وطغیان پر اتر آئے تب ہم نے بڑی سختی کے ساتھ ان کے کاموں کا حساب لیا اور بڑے ہی سخت عذاب (٤) میں گرفتار کیا
شریعت پر چلنا ہی روشنی کا انتخاب ہے جو لوگ اللہ کے امر کا خلاف کریں ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں ، اس کی شریعت پر نہ چلیں انہیں ڈانٹا جا رہا ہے کہ دیکھو گزشتہ لوگوں میں سے بھی جو اس روش پر چلے وہ تباہ و برباد ہو گئے جنہوں نے سرتابی ، سرکشی اور تکبر کیا حکم اللہ اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پرواہی برتی آخر انہیں سخت حساب دینا پڑا اور اپنی بدکرداری کا مزہ چکھنا پڑا ۔ انجام کار نقصان اٹھایا ، اس وقت نادم ہونے لگے ، لیکن اب ندامت کس کام کی ؟ پھر دنیا کے اس عذاب سے ہی اگر پلا پاک ہو جاتا تو جب بھی ایک بات تھی ، نہیں تو پھر ان کے لیے آخرت میں بھی سخت تر عذاب اور بے پناہ مار ہے ، اب اے سوچ سمجھ والو ! چاہیئے کہ ان جیسے نہ بنو اور ان کے انجام سے عبرت حاصل کرو ، اے عقلمند ایماندارو اللہ نے تمہاری طرف قرآن کریم نازل فرما دیا ہے ۔ «ذکر» سے مراد قرآن ہے جیسے اور جگہ فرمایا «إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ» ۱؎ (15-الحجر:9) ، ’ ہم نے اس قرآن کو نازل فرمایا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ‘ ۔ اور بعض نے کہا ہے ذکر سے مراد یہاں رسول ہے چنانچہ ساتھ ہی فرمایا ہے «رَسُولًا» تو یہ بدل اشتمال ہے ، چونکہ قرآن کے پہنچانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں تو اس مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لفظ «ذکر» سے یاد کیا گیا ، امام ابن جریر رحمہ اللہ بھی اسی مطلب کو درست بتاتے ہیں ۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت بیان فرمائی کہ ’ وہ اللہ کی واضح اور روشن آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں تاکہ مسلمان اندھیرں سے نکل آئیں اور روشنیوں میں پہنچ جائیں ‘ ، جیسے اور جگہ «الر کِتَابٌ أَنزَلْنَاہُ إِلَیْکَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ بِإِذْنِ رَبِّہِمْ إِلَیٰ صِرَاطِ الْعَزِیزِ الْحَمِیدِ» ۱؎ (14-ابراھیم:1) ’ اس کتاب کو ہم نے تجھے دیا ہے تاکہ تو لوگوں کو تاریکیوں سے روشنی میں لائے ‘ ۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے « اللہُ وَلِیٰ الَّذِینَ آمَنُوا یُخْرِجُہُم مِّنَ الظٰلُمَاتِ إِلَی النٰورِ وَالَّذِینَ کَفَرُوا أَوْلِیَاؤُہُمُ الطَّاغُوتُ یُخْرِجُونَہُم مِّنَ النٰورِ إِلَی الظٰلُمَاتِ أُولٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ» ۱؎ (2-البقرۃ:257) ، ’ اللہ ایمان والوں کا کارساز ہے وہ انہیں اندھیروں سے اجالے کی طرف لاتا ہے ‘ ، یعنی کفر و جہالت سے ایمان و علم کی طرف ، چنانچہ اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی نازل کردہ وحی کو نور فرمایا ہے کیونکہ اس سے ہدایت اور راہ راست حاصل ہوتی ہے اور اسی کا نام روح بھی رکھا ہے کیونکہ اس سے دلوں کی زندگی ملتی ہے ۔ چنانچہ ارشاد باری ہے «وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْنَا إِلَیْکَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا مَا کُنتَ تَدْرِی مَا الْکِتَابُ وَلَا الْإِیمَانُ وَلٰکِن جَعَلْنَاہُ نُورًا نَّہْدِی بِہِ مَن نَّشَاءُ مِنْ عِبَادِنَا وَإِنَّکَ لَتَہْدِی إِلَیٰ صِرَاطٍ مٰسْتَقِیمٍ» ۱؎ (42-الشوریٰ:52) یعنی ’ ہم نے اسی طرح تیری طرف اپنے حکم سے روح کی وحی کی تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے ؟ لیکن ہم نے اسے نور کر دیا جس کے ساتھ ہم اپنے جس بندے کو چاہیں ہدایت کرتے ہیں ، یقیناً تو صحیح اور سچی راہ کی رہبری کرتا ہے ‘ ۔ پھر ایمانداروں اور نیک اعمال والوں کا بدلہ بہتی نہروں والی ہمیشہ رہنے والی جنت بیان ہوا ہے جس کی تفسیر بارہا گزر چکی ہے ۔