وَاللَّائِي يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائِكُمْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَاللَّائِي لَمْ يَحِضْنَ ۚ وَأُولَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ وَمَن يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا
اور تمہاری عورتوں میں جو حیض سے مایوس ہوچکی ہوں اگر تمہیں شبہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اسی طرح ان عورتوں کی عدت بھی تین مہینے ہے جن کو ابھی حیض آنا شروع نہیں ہوا اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے تو اللہ اس کے کام میں سہولت پیدا کردیتا ہے۔
مسائل عدت جن بڑھیا عورتوں کی اپنی بڑی عمر کی وجہ سے ایام بند ہو گئے ہوں یہاں ان کی عدت بتائی جاتی ہے کہ تین مہینے کی عدت گزاریں ، جیسے کہ ایام والی عورتوں کی عدت تین حیض ہے ۔ ملاحظہ ہو سورۃ البقرہ کی آیت «وَالَّذِینَ یُتَوَفَّوْنَ مِنکُمْ وَیَذَرُونَ أَزْوَاجًا یَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِہِنَّ أَرْبَعَۃَ أَشْہُرٍ وَعَشْرًا» ۱؎ (2-البقرۃ:234) ’ تم میں سے جو لوگ فوت ہو جائیں اور بیویاں چھوڑ جائیں ، وہ عورتیں اپنے آپ کو چار مہینے اور دس [ دن ] عدت میں رکھیں ‘ ۔ اسی طرح وہ لڑکیاں جو اس عمر کو نہیں پہنچیں کہ انہیں حیض آئے ، ان کی عدت بھی یہی تین مہینے رکھی ، اگر تمہیں شک ہو ، اس کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک تو یہ کہ خون دیکھ لیں اور تمہیں شبہ گزرے کہ آیا حیض کا خون ہے یا استخاضہ کی بیماری کا ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ ” ان کی عدت کے حکم میں تمہیں شک باقی رہ جائے اور تم اسے نہ پہچان سکو تو تین مہینے یاد رکھو لو “ ۔ یہ دوسرا قول ہی زیادہ ظاہر ہے ، اس کی دلیل یہ روایت بھی ہے کہ { سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے کہا تھا یا رسول اللہ ! بہت سی عورتوں کی عدت ابھی بیان نہیں ہوئی ، کمسن لڑکیاں ، بوڑھی بڑی عورتیں اور حمل والی عورتیں اس کے جواب میں یہ آیت اتری } ۔ ۱؎ (مستدرک حاکم:392/4:منقطع ضعیف) پھر حاملہ کی عدت بیان فرمائی کہ ’ وضع حمل اس کی عدت ہے ، گو طلاق یا خاوند کی موت کے ذرا سی دیر بعد ہی ہو جائے ‘ ، جیسے کہ اس آیت کریمہ کے الفاظ ہیں اور احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور جمہور علماء سلف و خلف کا قول ہے ۔ ہاں سیدنا علی ابن طالب اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ سورۃ البقرہ کی آیت اور اس آیت کو ملا کر ان کا فتویٰ یہ ہے کہ ان دونوں میں سے جو زیادہ دیر میں ختم ہو وہ عدت یہ گزارے یعنی اگر بچہ تین مہینے سے پہلے پیدا ہو گیا تو تین مہینے کی عدت ہے اور تین مہینے گزر چکے اور بچہ نہیں ہوا تو بچے کے ہونے تک عدت ہے “ ۔ صحیح بخاری میں سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ { ایک شخص سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور اس وقت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی وہیں موجود تھے اس نے سوال کیا کہ اس عورت کے بارے میں آپ کا کیا فتویٰ ہے جسے اپنے خاوند کے انتقال کے بعد چالیسویں دن بچہ ہو جائے ؟ آپ نے فرمایا : ” دونوں عدتوں میں سے آخری عدت اسے گزارنی پڑے گی “ یعنی اس صورت میں تین مہینے کی عدت اس پر ہے ۔ ابوسلمہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ” قرآن میں تو ہے کہ حمل والیوں کی عدت بچہ کا ہو جانا ہے ؟ “ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ” میں بھی اپنے چچا زاد بھائی ابوسلمہ کے ساتھ ہوں “ یعنی میرا بھی یہی فتویٰ ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اسی وقت اپنے غلام کریب کو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس بھیجا کہ جاؤ ان سے یہ مسئلہ پوچھ آؤ انہوں نے فرمایا : ” سبیعہ اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے شوہر قتل کئے گئے اور یہ اس وقت امید سے تھیں ، چالیس راتوں کے بعد بچہ ہو گیا ، اسی وقت نکاح کا پیغام آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کر دیا پیغام دینے والوں میں ابوالسنابل بھی تھے “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4909) یہ حدیث قدرے طوالت کے ساتھ اور کتابوں میں بھی ہے ۔ { عبداللہ بن عتبہ رحمہ اللہ نے عمر بن عبداللہ بن ارقم زہری رحمہ اللہ کو لکھا کہ وہ سبیعہ بنت حارث اسلمیہ رضی اللہ عنہا کے پاس جائیں اور ان سے ان کا واقعہ دریافت کر کے انہیں لکھ بھیجیں ، یہ گئے ، دریافت کیا اور لکھا کہ ان کے خاوند سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ تھے یہ بدری صحابی تھے حجتہ الوداع میں فوت ہو گئے اس وقت یہ حمل سے تھیں ، تھوڑے ہی دن کے بعد انہیں بچہ پیدا ہو گیا ، جب نفاس سے پاک ہوئیں تو اچھے کپڑے پہن کر بناؤ سنگھار کر کے بیٹھ گئیں ابوالسنابل بن بعلک رضی اللہ عنہ جب ان کے پاس آئے تو انہیں اس حالت میں دیکھ کر کہنے لگے تم جو اس طرح بیٹھی ہو تو کیا نکاح کرنا چاہتی ہو ، واللہ ! تم نکاح نہیں کر سکتیں جب تک کہ چار مہینے دس دن نہ گزر جائیں ۔ میں یہ سن کر چادر اوڑھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” بچہ پیدا ہوتے ہی تم عدت سے نکل گئیں اب تمہیں اختیار ہے اگر چاہو تو اپنا نکاح کر لو “ } ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:3991) صحیح بخاری میں اس آیت کے تحت اس حدیث کے وارد کرنے کے بعد یہ بھی ہے کہ محمد بن سیرین رحمہ اللہ ایک مجلس میں تھے ، جہاں عبدالرحمٰن بن ابو یعلیٰ بھی تھے ، جن کی تعظیم تکریم ان کے ساتھی بہت ہی کیا کرتے تھے ، انہوں نے حاملہ کی عدت آخری دو عدتوں کی میعاد بتائی ، اس پر میں نے سبیعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث بیان کی ، اس پر میرے بعض ساتھی مجھے ٹہوکے لگانے لگے ، میں نے کہا : پھر تو میں نے بڑی جرأت کی اگر عبداللہ پر میں نے بہتان باندھا حالانکہ وہ کوفہ کے کونے میں زندہ موجود ہیں ، پس وہ ذرا شرما گئے اور کہنے لگے لیکن ان کے چچا تو یہ نہیں کہتے ، میں ابوعطیہ مالک بن عامر سے ملا ، انہوں نے مجھے سبیعہ رضی اللہ عنہا والی حدیث پوری سنائی ، میں نے کہا : تم نے اس بابت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بھی کچھ سنا ہے ؟ فرمایا : یہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے ، آپ نے فرمایا : کیا تم اس پر سختی کرتے ہو اور رخصت نہیں دیتے ؟ سورۃ نساء قصریٰ یعنی سورۃ الطلاق سورۃ نساء طولی کے بعد اتری ہے اور اس میں فرمان ہے کہ ’ حاملہ عورت کی عدت وضع حمل ہے ‘ ۔ ۱؎ (صحیح بخاری:4910) ابن جریر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو «ملاعنہ» کرنا چاہے ، میں اس سے «ملاعنہ» کرنے کو تیار ہوں یعنی میرے فتوے کے خلاف جس کا فتویٰ ہو میں تیار ہوں کہ وہ میرے مقابلہ میں آئے اور جھوٹے پر اللہ لعنت کرے ، میرا فتویٰ یہ ہے کہ حمل والی کی عدت بچہ کا پیدا ہو جانا ہے ، پہلے عام الحکم تھا کہ جن عورتوں کے خاوند مر جائیں وہ چار مہینے دس دن عدت گزاریں اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی کہ حمل والیوں کی عدت بچے کا پیدا ہو جانا ہے پس یہ عورتیں ان عورتوں میں سے مخصوص ہو گئیں اب مسئلہ یہی ہے کہ جس عورت کا خاوند مر جائے اور وہ حمل سے ہو تو جب حمل سے فارغ ہو جائے ، عدت سے نکل گئی ۔ ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ { سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ اس وقت فرمایا تھا جب انہیں معلوم ہوا کہ سیدنا علی ابن طالب رضی اللہ عنہ کا فتویٰ یہ ہے کہ اس کی عدت ان دونوں عدتوں میں سے جو آخری ہو وہ ہے ۔ } ۱؎ (سنن ابوداود:2307،قال الشیخ الألبانی:صحیح) مسند احمد میں ہے کہ { ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ حمل والیوں کی عدت جو وضع حمل ہے یہ تین طلاق والیوں کی عدت ہے یا فوت شدہ خاوند والیوں کی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” دونوں کی “ } ۔ ۱؎ (تفسیر ابن جریر الطبری:34317:ضعیف) یہ حدیث بہت غریب ہے بلکہ منکر ہے اس لیے کہ اس کی اسناد میں مثنی بن صباح ہے اور وہ بالکل متروک الحدیث ہے ، لیکن اس کی دوسری سندیں بھی ہیں ۔ پھر فرماتا ہے ’ اللہ تعالیٰ متقیوں کے لیے ہر مشکل سے آسانی اور ہر تکلیف سے راحت عنایت فرما دیتا ہے ، یہ اللہ کے احکام اور اس کی پاک شریعت ہے جو اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے سے تمہاری طرف اتار رہا ہے اللہ سے ڈرنے والوں کو اللہ تعالیٰ اور چیزوں کے ڈر سے بچا لیتا ہے اور ان کے تھوڑے عمل پر بڑا اجر دیتا ہے ‘ ۔