كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ
جو کچھ روئے زمین پر ہے سب فنا ہونے والا ہے
اللہ تعالیٰ کے سوا باقی سب فنا فرماتا ہے کہ زمین کی کل مخلوق فنا ہونے والی ہے ایک دن آئے گا کہ اس پر کچھ نہ ہو گا ، کل جاندار مخلوق کو موت آ جائے گی ، اسی طرح کل آسمان والے بھی موت کا مزہ چکھیں گے ، مگر جسے اللہ چاہے صرف اللہ کی ذات باقی رہ جائے گی جو ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ تک رہے گی، جو موت و فوت سے پاک ہے، قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں اولاً تو پیدائش عالم کا ذکر فرمایا پھر ان کی فنا کا بیان کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک منقول دعا میں یہ بھی ہے «یا حی یا قیوم یا بدیع السموات والارض یا ذا الجلال والاکرام لا الہ الا انت برحمتک نستغیث اصلح لنا شاننا کلہ ولا تکلنا الی انفسنا طرفتہ عین ولا الی احد من خلقک» یعنی اے ہمیشہ جینے اور ابدالآباد تک باقی اور تمام قائم رہنے والے اللہ! اے آسمان و زمین کے ابتداءً پیدا کرنے والے۔ اے رب جلال اور بزرگی والے پروردگار تیرے سوا کوئی معبود نہیں ، ہم تیری رحمت ہی سے استغاثہ کرتے ہیں ہمارے تمام کام تو بنا دے اور آنکھ جھپکنے کے برابر بھی تو ہماری طرف نہ سونپ اور نہ اپنی مخلوق میں سے کسی کی طرف۔ شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جب تو آیت «کُلٰ مَنْ علَیْہَا فَانٍ» پڑھے تو ٹھہر نہیں اور ساتھ ہی آیت «وَّیَبْقٰی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْ الْجَلٰلِ وَالْاِکْرَامِ» (55- الرحمن:27) پڑھ لے۔ اس آیت کا مضمون دوسری آیت میں ان الفاظ سے ہے «کُلٰ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہٗ ۭ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ» (28- القص:88) سوائے ذات باری کے ہر چیز ناپید ہونے والی ہے، پھر اپنے چہرے کی تعریف میں فرماتا ہے وہ ذوالجلال ہے یعنی اس قابل ہے کہ اس کی عزت کی جائے اس کا جاہ و جلال مانا جائے اور اس کے احکام کی پوری اطاعت کی جائے اور اس کے فرمان کی خلاف ورزی سے رکا جائے۔ جیسے اور جگہ ہے «وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بالْغَدٰوۃِ وَالْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَہٗ وَلَا تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُمْ» (18- الکہف:28)، جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے رہتے ہیں اور اسی کی ذات کے مرید ہیں تو انہی کے ساتھ اپنے نفس کو وابستہ رکھ ۔ اور آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ «إِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللہِ » (76-الانسان:9) نیک لوگ صدقہ دیتے وقت سمجھتے ہیں کہ ہم محض اللہ کی رضا کے لیے کھلاتے پلاتے ہیں ، وہ کبریائی بڑائی عظمت اور جلال والا ہے، پس اس بات کو بیان فرما کر کہ تمام اہل زمین فوت ہونے میں اور پھر اللہ کے سامنے قیامت کے دن پیش ہونے میں برابر ہیں ، اور اس دن وہ بزرگی والا اللہ ان کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ حکم فرمائے گا ۔ ساتھ ہی فرمایا : اب تم اے جن و انس رب کی کون سی نعمت کا انکار کرتے ہو؟ پھر فرماتا ہے کہ وہ ساری مخلوق سے بےنیاز ہے اور کل مخلوق اس کی یکسر محتاج ہے- سب کے سب سائل ہیں اور وہ غنی ہے ، سب فقیر ہیں اور وہ سب کے سوال پورے کرنے والا ہے، ہر مخلوق اپنے حال و قال سے اپنی حاجتیں اس کی بارگاہ میں لے جاتی ہے اور ان کے پورا ہونے کا سوال کرتی ہے۔ وہ ہر دن نئی شان میں ہے، اس کی شان ہے کہ ہر پکارنے والے کو جواب دے۔ مانگنے والے کو عطا فرمائے، تنگ حالوں کو کشادگی دے، مصیبت و آفات والوں کو رہائی بخشے ، بیماروں کو تندرستی عنایت فرمائے، غم و وہم دور کرے، بےقرار کی بےقراری کے وقت کی دعا کو قبول فرما کر اسے قرار اور آرام عنایت فرمائے۔ گنہگاروں کے واویلا پر متوجہ ہو کر خطاؤں سے درگزر فرمائے ، گناہوں کو بخشے، زندگی وہ دے، موت وہ دے ، تمام زمین والے ، کل آسمان والے اس کے آگے ہاتھ پھیلائے ہوئے اور دامن پھیلائے ہوئے ہیں ، چھوٹوں کو بڑا وہ کرتا ہے ، قیدیوں کو رہائی وہ دیتا ہے، نیک لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے والا، ان کی پکار کا مدعا، ان کے شکوے شکایت کا مراجع وہی ہے، غلاموں کو آزاد کرنے کی رغبت وہی دلانے والا اور ان کو اپنی طرف سے عطیہ وہی عطا فرماتا ہے یہی اس کی شان ہے ۔ ابن جریر رحمہ اللہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! وہ شان کیا ہے؟ فرمایا : ” گناہوں کو بخشنا، دکھ کو دور کرنا، لوگوں کو ترقی اور تنزلی پر لانا“ ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:592/11،ضعیف) ابن ابی حاتم میں اور ابن عساکر میں بھی اسی کے ہم معنی ایک حدیث ہے۔ صحیح بخاری میں یہ روایت معلقاً سیدنا ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کے قول سے مروی ہے (مسند ابویعلی:ضعیف،2268) بزار میں بھی کچھ کمی کے ساتھ مرفوعًا مروی ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے لوح محفوظ کو سفید موتی سے پیدا کیا اس کے دونوں تختے سرخ یاقوت کے ہیں- اس کا علم نوری ہے، اس کی چوڑائی آسمان و زمین کے برابر ہے۔ ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ اسے دیکھتا ہے ، ہر نگاہ پر کسی کو زندگی دیتا ہے اور مارتا اور کسی کو عزت و ذلت دیتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:592/11)