سورة آل عمران - آیت 169

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور (اے پیغبر) جو لوگ اللہ کے راستے میں قتل ہوئے ہیں، انہیں ہرگز مردہ نہ سمجھنا، بلکہ وہ زندہ ہیں، انہیں اپنے رب کے پاس رزق ملتا ہے۔

ابن کثیر - حافظ عماد الدین ابوالفداء ابن کثیر صاحب

بیئر معونہ کے شہداء اور جنت میں ان کی تمنا؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ گو شہید فی سبیل اللہ دنیا میں مار ڈالے جاتے ہیں لیکن آخرت میں ان کی روحیں زندہ رہتی ہیں اور رزق پاتی ہیں ، اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس یا ستر صحابیوں کو بیئر معونہ کی طرف بھیجا تھا یہ جماعت جب اس غار تک پہنچی جو اس کنویں کے اوپر تھی تو انہوں نے وہاں پڑاؤ کیا اور آپس میں کہنے لگے کون ہے ؟ جو اپنی جان خطرہ میں ڈال کر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ان تک پہنچائے ایک صحابی رضی اللہ عنہ اس کے لیے تیار ہوئے اور ان لوگوں کے گھروں کے پاس آ کر با آواز بلند فرمایا اے بیئر معونہ والو سنو ! میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد ہوں میری گواہی ہے کہ معبود صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور اس کے رسول ہیں یہ سنتے ہی ایک کافر اپنا تیر سنبھالے ہوئے اپنے گھر سے نکلا اور اس طرح تاک کر لگایا کہ ادھر کی پسلی سے ادھر کی پسلی میں آرپار نکل گیا ، اس صحابی رضی اللہ عنہ کی زبان سے بے ساختہ نکلا «فُزْتُ وَرَبِّ الْکَعْبَۃِ.» کعبے کے اللہ کی قسم میں اپنی مراد کو پہنچ گیا اب کفار نشانات ٹٹولتے ہوئے اس غار پر جا پہنچے اور عامر بن طفیل نے جو ان کا سردار تھا ان سب مسلمانوں کو شہید کر دیا سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ان کے بارے میں قرآن اترا کہ ہماری جانب سے ہماری قوم کو یہ خبر پہنچا دو کہ ہم اپنے رب سے ملے وہ ہم سے راضی ہو گیا اور ہم اس سے راضی ہو گئے ہم ان آیتوں کو برابر پڑھتے رہے پھر ایک مدت کے بعد یہ منسوخ ہو کر اٹھا لی گئیں اور آیت «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ» (3-آل عمران:169) اتری ۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8224) ۱؎ ( محمد بن جریر ) صحیح مسلم شریف میں ہے مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہم نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا تھا تو آپ نے فرمایا ان کی روحیں سبز رنگ پرندوں کے قالب میں ہیں ۔ عرش کی قندلیں ان کے لیے ہیں ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں چریں چگیں اور ان قندیلیوں میں آرام کریں ان کی طرف ان کے رب نے ایک مرتبہ نظر کی اور دریافت فرمایا کچھ اور چاہتے ہو ؟ کہنے لگے اے اللہ اور کیا مانگیں ساری جنت میں سے جہاں کہیں سے چاہیں کھائیں پئیں اختیار ہے پھر کیا طلب کریں؟ اللہ تعالیٰ نے ان سے پھر یہی پوچھا تیسری مرتبہ یہی سوال کیا جب انہوں نے دیکھا کہ بغیر کچھ مانگے چارہ ہی نہیں تو کہنے لگے اے رب ! ہم چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحوں کو جسموں کی طرف لوٹا دے ہم پھر دنیا میں جا کر تیری راہ میں جہاد کریں اور مارے جائیں اب معلوم ہو گیا کہ انہیں کسی اور چیز کی حاجت نہیں تو ان سے پوچھنا چھوڑ دیا کہ کیا چاہتے ہو ؟(صحیح مسلم:1887) ۱؎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو لوگ مر جائیں اور اللہ کے ہاں بہتری پائیں وہ ہرگز دنیا میں آنا پسند نہیں کرتے مگر شہید کہ وہ تمنا کرتا ہے کہ دنیا میں دوبارہ لوٹایا جائے اور دوبارہ راہ اللہ میں شہید ہو کیونکہ شہادت کے درجات کو وہ دیکھ رہا ہے ( مسند احمد ) صحیح مسلم شریف میں بھی یہ حدیث ہے ،(صحیح بخاری:2817) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے فرمایا اے جابر تمہیں معلوم بھی ہے ؟ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے والد کو زندہ کیا اور ان سے کہا اے میرے بندے مانگ کیا مانگتا ہے ؟ تو کہا اے اللہ دنیا میں پھر بھیج تاکہ میں دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں ، اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ تو میں فیصلہ کر چکا ہوں کہ کوئی یہاں دوبارہ لوٹایا نہیں جائے گا ،(مسند احمد:361/3:حسن بالشواھد) ۱؎ ان کا نام عبداللہ بن عمرو بن حرام انصاری تھا اللہ تعالیٰ ان سے رضامند ہو۔ صحیح بخاری شریف میں ہے جابر فرماتے ہیں میرے باپ کی شہادت کے بعد میں رونے لگا اور اپنے باپ کے منہ سے کپڑا ہٹا ہٹا کر بار بار ان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا ۔ صحابہ رضی اللہ عنہم مجھے منع کرتے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تھے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جابر رو مت جب تک تیرے والد کو اٹھایا نہیں گیا فرشتے اپنے پروں سے اس پر سایہ کئے ہوئے ہیں ، (صحیح بخاری:4080) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہارے بھائی احد والے دن شہید کئے گئے تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی روحیں سبز پرندوں کے قالب میں ڈال دیں جو جنتی درختوں کے پھل کھائیں اور جنتی نہروں کا پانی پئیں اور عرش کے سائے تلے وہاں لٹکتی ہوئی قندیلوں میں آرام و راحت حاصل کریں جب کھانے پینے رہنے سہنے کی یہ بہترین نعمتیں انہیں ملیں تو کہنے لگے کاش کہ ہمارے بھائیوں کو جو دنیا میں ہیں ہماری ان نعمتوں کی خبر مل جاتی تاکہ وہ جہاد سے منہ نہ پھیریں اور اللہ کی راہ کی لڑائیوں سے تھک کر نہ بیٹھ رہیں اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا تم بے فکر رہو میں یہ خبر ان تک پہنچا دیتا ہوں چنانچہ یہ آیتیں نازل فرمائیں۔(سنن ابوداود:2520،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں آیتیں اتریں ( مستدرک حاکم ) یہ بھی مفسرین نے فرمایا ہے کہ احد کے شہیدوں کے بارے میں یہ آیتیں نازل ہوئیں ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:389/7) ۱؎ ابوبکر بن مردویہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا اور فرمانے لگے جابر کیا بات ہے کہ تم مجھے غمگین نظر آتے ہو ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میرے والد شہید ہو گئے جن پر بار قرض بہت ہے اور میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی بہت ہیں آپ نے فرمایا سن میں تجھے بتاؤں جس کسی سے اللہ نے کلام کیا پردے کے پیچھے سے کلام کیا لیکن تیرے باپ سے آمنے سامنے بات چیت کی فرمایا مجھ سے مانگ جو مانگے گا دوں گا تیرے باپ نے کہا اللہ عزوجل میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں کہ تو مجھے دنیا میں دوبارہ بھیجے اور میں تیری راہ میں دوسری مرتبہ شہید کیا جاؤں ، رب عزوجل نے فرمایا یہ بات تو میں پہلے ہی مقرر کر چکا ہوں کہ کوئی بھی لوٹ کر دوبارہ دنیا میں نہیں جائے گا ۔ کہنے لگے پھر اے اللہ میرے بعد والوں کو ان مراتب کی خبر پہنچا دی جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آیت «وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیلِ اللہِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْیَاءٌ عِندَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُونَ» (3-آل عمران:168) فرمائی ،(سنن ترمذی:3010،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ بیہقی میں اتنا اور زیادہ ہے کہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں تو اے اللہ تیری عبادت کا حق بھی ادا نہیں کر سکا ۔مستدرک حاکم:203/3:ضعیف) ۱؎ مسند احمد میں ہے شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سے سبز گنبد میں ہیں ، صبح شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں ،(مسند احمد:266/1:حسن) ۱؎ دونوں احادیث میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض وہ ہیں جن کا ٹھکانا یہ گنبد ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر یہ کھانے یہیں کھلائے جاتے ہوں واللہ اعلم ، یہاں پر وہ حدیث بھی وارد کرنا بالکل برمحل ہو گا جس میں ہر مومن کے لیے یہی بشارت ہے چنانچہ مسند احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن کی روح ایک پرند میں ہے جو جنت کے درختوں کے پھل کھاتی پھرتی ہے یہاں تک کہ قیامت والے دن جبکہ اللہ تعالیٰ سب کو کھڑا کرے تو اسے بھی اس کے جسم کی طرف لوٹا دے گا ،(سنن ابن ماجہ:4271،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اس حدیث کے راویوں میں تین جلیل القدر امام ہیں جو ان چار اماموں میں سے ہیں جن کے مذاہب مانے جا رہے ہیں ، ایک تو امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ آپ اس حدیث کو روایت کرتے ہیں ، امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ان کے استاد ہیں سیدنا امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ پس امام احمد امام شافعی امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ سے ان کے استاد ہیں ۔ امام مالک بن انس رضی اللہ عنہ پس امام احمد، امام شافعی ، امام مالک تینوں زبردست پیشوا اس حدیث کے راوی ہیں ۔ پس اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایمانداروں کی روح جنتی پرند کی شکل میں جنت میں رہتی ہے اور شہیدوں کی روحیں جیسے کے پہلے گزر چکا ہے سبز رنگ کے پرندوں کے قالب میں رہتی ہیں یہ روحیں مثل ستاروں کے ہیں جو عام مومنین کی روحوں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ، یہ اپنے طور پر آپ ہی اڑتی ہیں ، اللہ تعالیٰ سے جو بہت بڑا مہربان اور زبردست احسانوں والا ہے ہماری دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنے فضل و کرم سے ایمان و اسلام پر موت دے آمین ۔ پھر فرمایا کہ یہ شہید جن جن نعمتوں اور آسائشوں میں ہیں ان سے بے حد مسرور اور بہت ہی خوش ہیں اور انہیں یہ بھی خوشی اور راحت ہے کہ ان کے بھائی بند جو ان کے بعد راہ اللہ میں شہید ہوں گے اور ان کے پاس آئیں گے انہیں آئندہ کا کچھ خوف نہ ہو گا اور اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی چیزوں پر انہیں حسرت بھی نہ ہو گی ، اللہ ہمیں بھی جنت نصیب کرے ، سیدنا محمد بن اسحاق رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ وہ خوش ہیں کہ ان کے کئی اور بھائی بند بھی جو جہاد میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی شہید ہو کر ان کی نعمتوں میں ان کے شریک حال ہوں گے اور اللہ کے ثواب سے فائدہ اٹھائیں گے ، سیدنا سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شہید کو ایک کتاب دی جاتی ہے کہ فلاں دن تیرے پاس فلاں آئے گا اور فلاں دن فلاں آئے گا پس جس طرح دنیا والے اپنی کسی غیر حاضر کے آنے کی خبر سن کر خوش ہوتے ہیں اسی طرح یہ شہداء ان شہیدوں کی آنے کی خبر سے مسرور ہوتے ہیں ، سیدنا سعید بن جبیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جب شہید جنت میں گئے اور وہاں اپنی منزلیں اور رحمتیں دیکھیں تو کہنے لگے کاش کہ اس کا علم ہمارے ان بھائیوں کو بھی ہوتا جو اب تک دنیا میں ہی ہیں تاکہ وہ جواں مردی سے جان توڑ کر جہاد کرتے اور ان جگہوں میں جا گھستے جہاں سے زندہ آنے کی امید نہ ہوتی تو وہ بھی ہماری ان نعمتوں میں حصہ دار بنتے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ان کے اس حال کی خبر پہنچا دی اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کہ دیا کہ میں نے تمہاری خبر تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی ہے اس سے وہ بہت ہی مسرور و محفوظ ہوئے بخاری مسلم میں بیر معونہ والوں کا قصہ بیان ہو چکا ہے جو ستر شخص انصاری صحابی رضی اللہ عنہم تھے اور ایک ہی دن صبح کے وقت کو بے دردی سے کفار نے تہہ تیغ کیا تھا جن قاتلوں کے حق میں ایک ماہ نماز کی قنوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا کی تھی اور جن پر لعنت بھیجی تھی جن کے بارے میں قرآن کی یہ آیت اتری تھی کہ ہماری قوم کو ہماری خبر پہنچاؤ کہ ہم اپنے رب سے ملے وہ ہم سے راضی ہوا اور ہم اس سے راضی ہو گئے ،(صحیح بخاری:4090) ۱؎ وہ اللہ کی نعمت و فضل کو دیکھ دیکھ کر مسرور ہیں ، سیدنا عبدالرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ آیت «یَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَۃٍ مِّنَ اللہِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللہَ لَا یُضِیعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِینَ» تمام ایمانداروں کے حق میں ہے خواہ شہید ہوں خواہ غیر ۔ بہت کم ایسے موقع ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں کی فضیلت اور ان کے ثوابوں کا ذکر نہ ہو ۔ پھر ان سچے مومنین کا بیان تعریف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔ جنہوں نے حمراء اسد والے دن حکم رسول پر باوجود زخموں سے چور ہونے کے جہاد پر کمر کس لی تھی ، مشرکین نے مسلمانوں کو مصیبتیں پہنچائیں اور اپنے گھروں کی طرف واپس چل دئیے ۔ لیکن پھر انہیں اس کا خیال آیا کہ موقع اچھا تھا مسلمان ہار چکے تھے، زخمی ہو گئے تھے ان کے بہادر شہید ہو چکے تھے اگر ہم اور جم کر لڑتے تو فیصلہ ہی ہو جاتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کا یہ ارادہ معلوم کر کے مسلمانوں کو تیار کرنے لگے کہ میرے ساتھ چلو ہم ان مشرکین کے پیچھے جائیں تاکہ ان پر رعب طاری ہو اور یہ جان لیں کہ مسلمان ابھی کمزور نہیں ہوئے احد میں جو لوگ موجود تھے صرف انہی کو ساتھ چلنے کا حکم ملا ہاں صرف سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کو ان کے علاوہ بھی ساتھ لیا اس آواز پر بھی مسلمانوں نے لبیک کہی باوجود یہ کہ زخموں میں چور اور خون میں شرابور تھے لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے لیے کمربستہ ہو گئے ، سیدنا عکرمہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ جب مشرکین احد سے لوٹے تو راستے میں سوچنے لگے کہ نہ تو تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کیا نہ مسلمانوں کی عورتوں کو پکڑا افسوس تم نے کچھ نہ کیا واپس لوٹو جب یہ خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی تو آپ نے مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا یہ تیار ہو گئے اور مشرکین کے تعاقب میں چل پڑے یہاں تک کہ حمراء الاسد تک یا “بیئر ابی عینیہ“ تک پہنچ گئے ۔ مشرکین کے دل رعب و خوف سے بھر گئے اور یہ کہہ کر مکہ کی طرف چل دئیے اگلے سال دیکھا جائے گا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی واپس مدینہ تشریف لائے ، یہ بھی بالاستقلال ایک الگ لڑائی گنی جاتی ہے اسی کا ذکر اس آیت میں ہے۔ (سنن نسائی:11083) ۱؎ احد کی لڑائی پندرہ شوال بروز ہفتہ ہوئی تھی سولہویں تاریخ بروز اتوار منادی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ندا دی کہ لوگو! دشمن کے تعاقب میں چلو اور وہی لوگ چلیں جو کل میدان میں تھے ، اس آواز پر سیدنا جابر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کل کی لڑائی میں میں نہ تھا اس لیے کہ میرے والد عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے کہا بیٹے تمہارے ساتھ یہ چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں اسے تو نہ میں پسند کروں اور نہ تو کہ انہیں یہاں تنہا چھوڑ کر دونوں ہی چل دیں ایک جائے گا اور ایک یہاں رہے گا ۔ مجھ سے یہ نہیں ہو سکتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب تم جاؤ اور میں بیٹھا رہوں اس لیے میری خواہش ہے کہ تم اپنی بہنوں کے پاس رہو اور میں جاتا ہوں اس وجہ سے میں تو وہاں رہا اور میرے والد آپ کے ساتھ آئے اب میری عین تمنا ہے کہ آج مجھے اجازت دیجئیے کہ میں آپ کے ساتھ چلوں چنانچہ آپ نے اجازت دی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر اس غرض سے تھا کہ دشمن دہل جائے اور پیچھے آتا ہوا دیکھ کر سمجھ لے کہ ان میں بہت کچھ قوت ہے اور ہمارے مقابلہ سے یہ عاجز نہیں ، قبیلہ بنو عبدالاشہل کے ایک صحابی کا بیان ہے کہ غزوہ احد میں ہم دونوں بھائی شامل تھے اور سخت زخمی ہو کر ہم لوٹے تھے ، جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے منادی نے دشمن کے پیچھے جانے کی ندا دی تو ہم دونوں بھائیوں نے آپس میں کہا کہ افسوس نہ ہمارے پاس سواری ہے کہ اس پر سوار ہو کر اللہ کے نبی کے ساتھ جائیں ، نہ زخموں کے مارے جسم میں اتنی طاقت ہے کہ پیدل ساتھ ہو لیں افسوس کہ یہ غزوہ ہمارے ہاتھ سے نکل جائے گا ہمارے بےشمار گہرے زخم ہمیں آج جانے سے روک دیں گے لیکن پھر ہم نے ہمت باندھی مجھے اپنے بھائی کی نسبت ذرا ہلکے زخم تھے جب میرے بھائی بالکل عاجز آ جاتے قدم نہ اٹھتا تو میں انہیں جوں توں کر کے اٹھا لیتا جب تھک جاتا اتار دیتا یونہی جوں توں کر کے ہم لشکر گاہ تک پہنچ ہی گئے ۔ ( سیرت ابن اسحاق )(تفسیر ابن جریر الطبری:8233:ضعیف) ۱؎ صحیح بخاری شریف میں ہے کہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا عروہ رحمہ اللہ سے کہا اے بھانجے تیرے دونوں باپ انہی لوگوں میں سے ہیں جن کے بارے میں آیت «الَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِلہِ وَالرَّسُولِ مِن بَعْدِ مَا أَصَابَہُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِینَ أَحْسَنُوا مِنْہُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِیمٌ» (3-آل عمران:172) ، آیت اتری ہے یعنی سیدنا زبیر اور سیدنا صدیق رضی اللہ عنہما جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو احد کی جنگ میں نقصان پہنچا اور مشرکین آگے چلے تو آپ کو خیال ہوا کہ کہیں یہ پھر واپس نہ لوٹیں لہٰذا آپ نے فرمایا کوئی ہے جو ان کے پیچھے جائے اس پر ستر شخص اس کام کے لیے مستعد ہو گئے جن میں ایک سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے ، دوسرے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ تھے (صحیح بخاری:4077) ۱؎ یہ روایت اور بہت سی اسناد سے بہت سی کتابوں میں ہے ، ابن مردویہ میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ تیرے دونوں باپ ان لوگوں میں سے ہیں لیکن یہ مرفوع بیان کرنا محض خطا ہے اس لیے بھی کہ اس کی اسناد میں ثقہ راویوں کا اختلاف ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہا کے باپ دادا میں سے نہیں صحیح یہ ہے کہ یہ بات عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھانجے سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کے لڑکے عروہ سے کہی ہے ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابوسفیان کے دل میں رعب ڈال دیا اور باوجود یہ کہ کہ وہ احد کی لڑائی میں قدرے کامیاب ہو گیا تھا لیکن تاہم مکہ کی طرف چل دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابوسفیان تمہیں نقصان پہنچا کر لوٹ گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو مرعوب کر دیا ہے ، احد کی لڑائی شوال میں ہوئی تھی اور تاجر لوگ ذی قعدہ میں مدینہ آتے تھے اور بدر صغریٰ میں اپنے ڈیرے ہر سال اس ماہ میں ڈالا کرتے تھے اس دفعہ بھی اس واقعہ کے بعد لوگ آئے مسلمان اپنے زخموں میں چور تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکالیف بیان کرتے تھے اور سخت صدمہ میں تھے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس بات پر آمادہ کیا کہ وہ آپ کے ساتھ چلیں اور فرمایا کہ یہ لوگ اب کوچ کر جائیں گے اور پھر حج کو آئیں گے اور پھر اگلے سال تک یہ طاقت انہیں حاصل نہیں ہو گی لیکن شیطان نے اپنے دوستوں کو دھمکانا اور بہکانا شروع کر دیا اور کہنے لگا کہ ان لوگوں نے تمہارے استیصال کے لیے لشکر تیار کر لیے ہیں جس بنا پر لوگ ڈھیلے پڑ گئے آپ نے فرمایا سنو خواہ تم میں سے ایک بھی نہ چلے میں تن تنہا جاؤں گا پھر آپ کے رغبت دلانے پر ابوبکر ، عمر ، عثمان ، علی ، زبیر ، سعد ، طلحہ ، عبدالرحمٰن بن عوف ، عبداللہ بن مسعود ، حذیفہ بن یمان ، ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہم وغیرہ ستر صحابہ آپ کے زیر رکاب چلنے پر آمادہ ہوئے ۔ یہ مبارک لشکر ابوسفیان کی جستجو میں بدر صغریٰ تک پہنچ گیا انہی کی اس فضیلت اور جاں بازی کا ذکر اس مبارک آیت میں ہے ،(تفسیر ابن جریر الطبری:8238) ۱؎ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس سفر میں مدینہ سے آٹھ میل حمراء اسد تک پہنچ گئے ۔ مدینہ میں اپنا نائب آپ نے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو بنایا تھا ۔ وہاں آپ نے پیر منگل بدھ تک قیام کیا پھر مدینہ لوٹ آئے ، اثناء قیام میں قبیلہ خزاعہ کا سردار معبد خزاعی یہاں سے نکلا تھا یہ خود مشرک تھا لیکن اس پورے قبیلے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صلح و صفائی تھی اس قبیلہ کے مشرک مومن سب آپ کے خیرخواہ تھے اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کو جو تکلیف پہنچی اس پر ہمیں سخت رنج ہے اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی کی خوشی نصیب فرمائے ، حمراء اسد پر آپ پہنچے مگر اس سے پہلے ابوسفیان چل دیا تھا گو اس نے اور اس کے ساتھیوں نے واپس آنے کا ارادہ کیا تھا کہ جب ہم ان پر غالب آ گئے انہیں قتل کیا مارا پیٹا زخمی کیا پھر ادھورا کام کیوں چھوڑیں؟ واپس جا کر سب کو تہ تیغ کر دیں یہ مشورے ہو ہی رہے تھے کہ معبد خزاعی وہاں پہنچا ابوسفیان نے اس سے پوچھا کہو کیا خبریں ہیں اس نے کہا آنحضور مع صحابہ رضی اللہ عنہم کے تم لوگوں کے تعاقب میں آ رہے ہیں وہ لوگ سخت غصے میں ہیں جو پہلے لڑائی میں شریک نہ تھے وہ بھی شامل ہو گئے ہیں سب کے تیور بدلے ہوئے ہیں اور بھرپور طاقت کے ساتھ حملہ آور ہو رہے ہیں میں نے تو ایسا لشکر کبھی دیکھا نہیں ، یہ سن کر ابوسفیان کے ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے اور کہنے لگا اچھا ہی ہوا جو تم سے ملاقات ہو گئی ورنہ ہم تو خود ان کی طرف جانے کے لیے تیار تھے ، معبد نے کہا ہرگز یہ ارادہ نہ کرو اور میری بات کا کیا ہے غالباً تم یہاں سے کوچ کرنے سے پہلے ہی لشکر اسلام کے گھوڑوں کو دیکھ لو گے میں ان کے لشکر ان کے غصے ان کی تیاری اور اوالوالعزمی کا حال بیان نہیں کر سکتا میں تو تم سے صاف کہتا ہوں کہ بھاگو اور اپنی جانیں بچاؤ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن سے میں مسلمانوں کے غیظ و غضب اور تہورو شجاعت اور سختی اور پختگی کا بیان کر سکوں ، پس مختصر یہ ہے کہ جان کی خیر مناتے ہو تو فوراً یہاں سے کوچ کرو ، ابوسفیان اور اس کے ساتھیوں کے چھکے چھوٹ گئے اور انہوں نے یہاں سے مکہ کی راہ لی ، قبیلہ عبدالقیس کے آدمی جو کاروبار کی غرض سے مدینہ جا رہے تھے ان سے ابوسفیان نے کہا کہ تم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خبر پہنچا دینا کہ ہم نے انہیں تہ تیغ کر دینے کے لیے لشکر جمع کر لیے ہیں اور ہم واپس لوٹنے کا ارادہ میں ہیں ، اگر تم نے یہ پیغام پہنچا دیا تو ہم تمہیں سوق عکاظ میں بہت ساری کشمش دیں گے چنانچہ ان لوگوں نے حمراء اسد میں آ کر بطور ڈراوے کے نمک مرچ لگا کر یہ وحشت اثر خبر سنائی لیکن صحابہ رضی اللہ عنہم نے نہایت استقلال اور پامردی سے جواب دیا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ، جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے ان کے لیے ایک پتھر کا نشان مقرر کر رکھا ہے اگر یہ لوٹیں گے تو وہاں پہنچ کر اس طرح مٹ جائیں گے جیسے گزشتہ کل کا دن۔(تفسیر ابن جریر الطبری:8243) ۱؎ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت بدر کے بارے میں نازل ہوئی ہے لیکن صحیح تر یہی ہے کہ حمراء اسد کے بارے میں نازل ہوئی ۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں نے انہیں پژمردہ دل کرنے کے لیے دشمنوں کے سازو سامان اور ان کی کثرت و بہتات سے ڈرایا لیکن وہ صبر کے پہاڑ ثابت ہوئے ان کے غیر متزلزل یقین میں کچھ فرق نہ آیا بلکہ وہ تو توکل میں اور بڑھ گئی اور اللہ کی طرف نظریں کر کے اس سے امداد طلب کی ، صحیح بخاری شریف میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ آیت «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» الخ ،سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں پڑتے وقت پڑھا تھا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت جب کہ کافروں کے ٹڈی دل لشکر سے لوگوں نے آپ کو خوف زدہ کرنا چاہا اس وقت پڑھا ،(صحیح بخاری:4564) ۱؎ تعجب کی بات ہے کہ امام حاکم نے اس روایت کو رد کر کے فرمایا ہے کہ یہ بخاری مسلم میں نہیں ۔ بخاری کی ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ یہ آخری کلمہ تھا جا خلیل علیہ السلام کی زبان سے آگ میں پڑتے وقت نکلا تھا ۔(صحیح بخاری:4561) ۱؎ سیدنا انس رضی اللہ عنہ والی روایت میں ہے کہ احد کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کے لشکروں کی خبر دی گئی تو آپ نے یہی کلمہ فرمایا (ضعیف) ۱؎ اور روایت میں ہے کہ سیدنا علی کی سرداری کے ماتحت جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چھوٹا سا لشکر روانہ کیا اور راہ میں خزاعہ کے ایک اعرابی نے یہ خبر سنائی تو آپ نے یہ فرمایا تھا ۔(ضعیف) ۱؎ ابن مردویہ کی حدیث میں ہے آپ فرماتے ہیں جب تم پر کوئی بہت بڑا کام آ پڑے تو تم آیت «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ» آخر تک پڑھو ۔ (الدار المسشور للسیوطی:181/2:ضعیف) ۱؎ مسند احمد میں ہے کہ دو شخصوں کے درمیان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا تو جس کے خلاف فیصلہ صادر ہوا تھا اس نے یہی کلمہ پڑھا آپ نے اسے واپس بلا کر فرمایا بزدلی اور سستی پر اللہ کی ملامت ہوتی ہے دانائی دور اندیشی اور عقلمندی کیا کرو پھر کسی امر میں پھنس جاؤ تو یہی پڑھ لیا کرو ، (مسند احمد:25/6:ضعیف) ۱؎ مسند کی اور حدیث میں ہے کس طرح بے فکر اور فارغ ہو کر آرام پاؤں حالانکہ صاحب صور نے صور منہ میں لے رکھا ہے اور پیشانی جھکائے حکم اللہ کا منتظر ہے کہ کب حکم ہوا اور وہ صور پھونک دے ، صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہم کیا پڑھیں آپ نے فرمایا آیت «حَسْبُنَا اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیلُ عَلیٰ اللہِ تَوَّکَلَّنَا» پڑھو ۔(سنن ترمذی:2431،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ ام المؤمنین سیدہ زینب اور ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ زینب نے فخر سے فرمایا میرا نکاح خود اللہ نے کر دیا ہے اور تمہارے نکاح ولی وارثوں نے کئے ہیں ، صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا میری برأت اور پاکیزگی کی آیت اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اپنے پاک کلام میں نازل فرمائی ہیں۔سیدہ زینب اسے مان گئیں اور پوچھا یہ بتاؤ تم نے صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی سواری پر سوار ہوتے وقت کیا پڑھا تھا ، صدیقہ نے فرمایا دعا «حسبی اللہ ونعم الوکیل» یہ سن کر ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نے ایمان والوں کا کلمہ کہا تھا ۔ چنانچہ اس آیت میں بھی رب رحیم کا ارشاد ہے کہ ان توکل کرنے والوں کی کفایت اللہ تعالیٰ نے کی اور ان کے ساتھ جو لوگ برائی کا ارادہ رکھتے تھے انہیں ذلت اور بربادی کے ساتھ پسپا کیا ، یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنے شہروں کی طرف بغیر کسی نقصان اور برائی کے لوٹے دشمن اپنی مکاریوں میں ناکام رہا ، ان سے اللہ خوش ہو گیا کیونکہ انہوں نے اس کی خوشی کا کام انجام دیا تھا اللہ تعالیٰ بڑے فضل و کرم والا ہے ۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا فرمان ہے کہ نعمت تو یہ تھی کہ وہ سلامت رہے اور فضل یہ تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاجروں کے ایک قافلہ سے مال خرید لیا جس میں بہت ہی نفع ہوا اور اس کل نفع کو آپ نے اپنے ساتھیوں میں تقسیم فرما دیا ۔(دلائل النبوۃ للبیہقی:318/3:ضعیف) ۱؎ سیدنا مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ابوسفیان نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا اب وعدے کی جگہ بدر ہے آپ نے فرمایا ممکن ہے چنانچہ وہاں پہنچے تو یہ ڈرپوک آیا ہی نہیں وہاں بازار کا دن تھا مال خرید لیا جو نفع سے بکا اسی کا نام غزوہ بدر صغریٰ ہے ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8238:مرسل ضعیف) ۱؎ پھر فرماتا ہے کہ یہ شیطان تھا جو اپنے دوستوں کے ذریعہ تمہیں دھمکا رہا تھا اور گیدڑ بھبکیاں دے رہا تمہیں چاہیئے کہ ان سے نہ ڈرو صرف میرا ہی خوف دل میں رکھو کیونکہ ایمان داری کی یہی شرط ہے کہ جب کوئی ڈرائے دھمکائے اور دینی امور سے تمہیں باز رکھنا چاہیئے تو مسلمان اللہ پر بھروسہ کرے اس کی طرف سمٹ جائے اور یقین مانے کہ کافی اور ناصر وہی ہے جیسے اور جگہ ہے آیت «اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ وَیُخَوِّفُوْنَکَ بِالَّذِیْنَ مِنْ دُوْنِہٖ» (39-الزمر:36) ، کیا اللہ جل شانہ اپنے بندوں کو کافی نہیں یہ لوگ تجھے اس کے سوا اوروں سے ڈرا رہے ہیں ( یہاں تک کہ فرمایا ) تو کہہ کہ «قُلْ حَسْبِیَ اللہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُونَ» مجھے اللہ کافی ہے توکل کرنے والوں کو اسی پر بھروسہ کرنا چاہیئے ۔ اور جگہ فرمایا «فَقَاتِلُوا أَوْلِیَاءَ الشَّیْطَانِ إِنَّ کَیْدَ الشَّیْطَانِ کَانَ ضَعِیفًا» اولیاء شیطان سے لڑو ۔ (4-النساء:76) ۱؎ شیطان کا مکر بڑا بودا ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے یہ شیطانی لشکر ہے یاد رکھو شیطانی لشکر ہی گھاٹے اور خسارے میں ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ» (58-المجادلۃ:21) ، اللہ تعالیٰ لکھ چکا ہے کہ غلبہ یقیناً مجھے اور میرے رسولوں کو ہی ہو گا اللہ قوی اور عزیز ہے ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «وَلَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ» (22-الحج:40) جو اللہ کی مدد کرے گا اس کی امداد فرمائے گا ، اللہ قوی اور عزیز ہے۔ اور فرمان ہے «یٰٓاَیٰہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ» (47-محمد:7)، اے ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ تمہاری بھی مدد کرے گا ۔ اور آیت میں ہے «اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدٰنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ یَوْمَ لَا یَنفَعُ الظَّالِمِینَ مَعْذِرَتُہُمْ وَلَہُمُ اللَّعْنَۃُ وَلَہُمْ سُوءُ الدَّارِ» (40-غافر:52-51 ) ، بالیقین ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان داروں کی مدد دینا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جس دن گواہ کھڑے ہوں گے جس دن ظالموں کو عذر معذرت نفع نہ دے گی ان کے لیے لعنت ہے اور ان کے لیے برا گھر ہے ۔